نوکر شاہی کی بادشاہی

نوکر شاہی کی بادشاہی

قیام پاکستان کے لیے ہم نے بہت قربانیاں دی تھیں، کس لئے کہ ہم آزاد ہوئے، رام راج اور ٹام راج سے مگر ہم کب آزاد ہوئے ہیں اور کب آزاد ہوں گے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں انگریز کی غلامی سے نجات دلائی اور ہم اللہ کے حضور سجدۂ ریز تشکر ہو گئے کہ ہم آزاد ہیں اور پاکستان کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ مگر ہم نوکر شاہی کی غلامی سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں اور تحریک آزادی کا سفر رکا نہیں، ابھی جاری و ساری ہے اور اس حقیقی آزادی کے لیے ہی وزیر اعظم عمران خان کی کوششیں ان شاء اللہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔ یہاں نوکر شاہی کی اپنی بادشاہی ہے۔ عوام کی ان تک رسائی نہیں ہے اور سرکاری اداروں میں کسی بھی کام کا ہونا ناممکن ہیں۔ اس کی مثال واپڈا کا ادارہ ہے جس کے ایکسین، ایس ڈی او اور لائن سپرنٹنڈنٹ تک ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی رسائی نہیں ہو سکتی تو عام آدمی تو وہاں سے گزر ہی نہیں سکتا۔ عوام کی سہولت کے لیے جو موبائل نمبر ایکسین، ایس ڈی او کو حکومت پاکستان نے فراہم کیے ہوئے ہیں اگر وہ بھی نہیں سننے ہیں تو حکومت کو واپس کر دیں۔ جن کے بل قومی خزانے پر خواہ مخواہ بوجھ ہیں، ہم کب ابھی آزاد ہوئے ہیں۔ غالب جیل سے رہا ہو کر آئے تو دوست احباب مبارک بادیں دینے کے لئے آئے۔ غالب کہنے لگے کون رہا ہو کر آیا ہے پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں۔ کالے خان غالب کے دوست تھے، رہا ہو کر سیدھے کالے خان کے گھر میں آئے۔ برسبیل تذکرہ غالب کا تذکرہ ہو گیا ہے ہم تو غالب نہیں ہیں۔ اس وقت تو نوکر شاہی ہی غالب ہے اور ہم مغلوب ہیں۔ نوکر شاہی کی بادشاہی سے عوام مر رہے ہیں، ان کی شکایات راستے میں ہی دم توڑ رہی ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور وہ روز محشر سے پہلے بھی محشر برپا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرو وہ ستر ماؤں سے زیادہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہے ڈرو اپنے کردار کی پراگندگی سے، ڈرو مظلوموں، بیواؤں اور بے کس و بے بس عوام سے، جنہیں نوکر شاہی نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ نیب کا ادارہ مجرموں کو سزا دینے کے بجائے انہیں تحفظ فراہم کر رہا ہے، تنہا ایماندار شخص کرپشن کے بحر الکاہل میں ڈوبے ہوئے نظام کو نہیں بدل سکتا جب تک اس کے ساتھ کام کرنے والے سارے دیانت، امانت اور صداقت کے پیکر متحرک نہ ہوں۔ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کر رہے ہیں۔ میں تو اسے بھی ماحول کی آلودگی ہی کہوں گی۔ علیم خان کے بارے میں دو ماہ قبل ان کے رازداروں میں سے کوئی بات کر رہا تھا کہ وہ موجودہ حالات میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے اور شاید وہ مستعفی ہو جائیں گے تو آج یہ بات سچ ثابت ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں میں بھی مایوسی کی لہر دوڑ رہی ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں جو لوگ پچھلی حکومتوں میں تھے ان کی اکثریت موجوہ حکومت میں شامل ہے۔ کیا کارکنوں کی قسمت میں صرف نعرے لگانا ہی لکھا ہوا ہے۔ نوکر شاہی پچھلی حکومتوں سے اپنی وابستگیاں رکھتی ہے اور بظاہر موجودہ حکومت کے احکامات پر عمل صرف یس سر کی حد تک کرتی ہیں اور احکامات ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو نوکر شاہی کی بادشاہی میں مشکلات درپیش ہیں جن کو وہ دور کرنے کے لیے بے بس نظر آتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ خود وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑ کر دعوت دے دیں کہ اب آپ خود اس نظام کو بدل لو۔ اس وقت پاکستان چاروں جانب سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اور یہ بدشگونی نہیں ہے، نا امیدی نہیں کامیابی کی طرف پاکستان بڑھ رہا ہے۔ ہمیشہ تکلیف کے بعد راحت کے سامان غیب سے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور
شاخ گل پہ گل آنے سے پہلے خار آتے ہیں جدید عہد کے برقی ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور عوام کو ہجوم سے قوم بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستانی عوام بھیڑ اور ہجوم کے بجائے ایک قوم بن جائے تو نوکر شاہی کا تاج محل میں بوس ہو جائے گا۔