'اندر کی کہانی نہیں جانتا لیکن زرداری جو کام کر رہے ہیں وہ شرمناک ہیں'

'اندر کی کہانی نہیں جانتا لیکن زرداری جو کام کر رہے ہیں وہ شرمناک ہیں'

اسلام آباد: احتساب عدالت میں میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران نواز شریف نے کہا کہ ملک انگریزوں سے آزاد کروا کر مارشل لاوٴں میں قید کر دیا گیا جبکہ الیکشن کے التواء کی کوئی گنجائش نہیں اور کسی نظریہ ضرورت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والی تبدیلیاں مشکوک ہیں اور چیئرمین سینیٹ ایک مشکوک شخص کو بنا دیا گیا ہے جبکہ ملک میں ایک مکروہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جس میں نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں۔ اندر کی کہانی تو نہیں جانتا لیکن آصف زرداری جو کام کر رہے ہیں وہ شرمناک ہیں اور مشکوک کاموں کا وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیے۔

یہ خبر بھی پڑھیں: ذوالفقار علی بھٹو کی 39 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سیاستدان کا کوئی اصول اور موقف ہونا چاہیے جبکہ عمران خان نے آصف زرداری کو بیماری قراردیا اور کہا تھا کہ ان سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا۔ عمران خان بتائیں کیا ان کے لوگوں نے ڈپٹی چیئرمین کے لیے تیر کے نشان پر مہر نہیں لگائی۔

حکومتی دعوؤں کے برعکس ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ پر نواز شریف نے کہا کہ پچھلے پانچ سال میں ہزاروں میگا واٹ بجلی سسٹم میں آئی جب تک میں وزیراعظم تھا تو لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی تھی اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے کی وجوہات جاننے کے لئے حکومت سے بات کروں گا۔ کسی کمپنی کے واجبات ادا کرنا ہیں یا کوئی اور وجہ ہے معلوم کروں گا۔

مزید پڑھیں: 15 دن میں ملازمین کو ادائیگی کریں، ورنہ چینل بند کر دیں گے، چیف جسٹس کا حکم

کلثوم نواز کی عیادت کے لیے استثنیٰ کی درخواست مسترد کئے جانے سے متعلق نواز شریف نے کہا کہ ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ مشاورت کیلئے میرا اہلیہ کے پاس ہونا ضروری ہے اور مجھے اپنی بیمار اہلیہ کی عیادت کیلئے جانے کی اجازت نہیں دی گئی جس پر صحافی نے سوال کیا کہ جج صاحب نے کہا تھا کہ آپ کے پاس 5 دن تھے آپ جا سکتے تھے؟۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ لندن جانے اور آنے میں دو دن لگتے ہیں اور ان دنوں میں ویک اینڈ تھا جبکہ ڈاکٹرز ہفتہ اور اتوار مشاورت نہیں کرتے۔

چیف جسٹس پر تنقید کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ چیف جسٹس سے ملاقات کے حوالے سے ان کی شاہد خاقان عباسی سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ لوگ نسلوں سے فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں لیکن چیف جسٹس دودھ کی کوالٹی چیک کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور مقننہ کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ سارا کام چیف جسٹس کے ہاتھ میں دے دینا چاہئے۔

نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں