کمیشن کھانے اور بنانے والے حکمرانوں کے درمیان

کمیشن کھانے اور بنانے والے حکمرانوں کے درمیان

بے شرمی اوربے غیرتی کی کوئی تو حد ہوتی ہوگی؟  منافقت اور دین فروشی پر کہیں تو زندہ انسان ریڈ لائن لگاتے ہوں گے؟ غیرت مند کہیں تو مشتعل ہوتے ہوں گے؟ اپنے وطن سے محبت کا جذبہ کہیں نہ کہیں تو جوش مارتا ہو گا؟ اچھے خاصے ملک کو چیستان بنا کر رکھ دیا ہے۔بات سمجھ آنا شروع ہوئی تو بچا کھچا پاکستان اورحمود الرحمن کمیشن سامنے کھڑا منہ چڑا رہا تھا اورتب سے آج تک ہم نے کمیشن کھانے اوراُن پر کمیشن بنانے والوں کے درمیان زندگی گزاردی۔میں نے کسی ظالم کو سزا ہوتے کم از کم پاکستان میں تو نہیں دیکھا البتہ مظلوموں کو ذلیل و خوار ہونے کے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں واقعات میرے ذہن کی لائبریری میں موجود ہوں گے۔ جو میرے مطالعہ ٗ مشاہدے اورتجربے کی صورت میں مجھ تک پہنچے۔ داغدار ماضی ٗ ذلت آمیز حال اور بے یقین مستقبل کبھی ہمارے تعاقب اور کبھی مقابل رہا۔ یہی سچ ہے اورآخری سچ ہے اگر آپ اسے نہیں مانتے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں آپ سے پہلے لوگوں نے بھی کب ہم سے پہلے لوگوں کی بات مان لی تھی۔ حبیب جالب کا1971ء سے پہلے کا شعرہے کہ 
محبت گولیوں سے بو رہے ہو 
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو 
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے 
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اور پھر جالب کا یقین اُس وقت کی حکمران اشرافیہ کے گمان پر غالب آ گیا لیکن ہم نے اپنے شکست خوردہ ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ فتح کی سمت متعین کرنے کے بجائے ہم نے ایک نئی شکست کیلئے راہ ہموار کرنا شروع کردی۔ پاکستا ن کے عوام اپنے اداروں کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں اتنے مایوس کہ وہ عمران خان جیسے کذاب کا ساتھ دینے کیلئے بھی تیار ہو چکے ہیں۔ جو انہیں اُس منزل کی طرف لے جانا شروع ہو چکا ہے جہاں سے قومیں مڑ کے دیکھیں تو پتھر کی ہو جاتی ہیں اورچلتی رہیں تو پہلے مبہم اورپھر معدوم ہو جاتی ہیں۔ اقتدار کی رسہ کشی میں ہمیشہ کی طرح پاکستانی عوا م سب سے پیچھے ہیں۔ ہر عہد نے ایک لاڈلا پال کر رکھا ہے اور وہ اتنا منہ زور ہوتا ہے کہ محمد شاہ رنگیلے کے درباری مسخروں کو بھی مات دے دیتا ہے جو دربار میں بادشاہ کی موجودگی میں درباریوں پر پیشاب کردیا کرتا تھا اور بادشاہ سلامت کی ہنسی نہیں رکتی تھی۔ یہ خیال یا وجدان نہیں تاریخ ہے ٗ بے رحم تاریخ جو آ نے والوں کو نصیحت بھی ہوتی ہے اور تجربہ بھی۔ جو اس سے نہیں سیکھتا وہ خود تاریخ کی کسی گرد آلود کتاب کا مردہ کردار بن کر شیلف میں پڑا قارئین کی توجہ کو ترستا رہتا ہے۔
عمران خان 2018ء کے انتخابات میں اچھی خاصی بن بنائی ریڈیمیڈشہرت لے کر آئے تھے اُن کے ماتھے پر کرکٹ ورلڈ کپ ٗ شوکت خانم اورنمل 
یونیورسٹی کے تاج سجے تھے۔ اُن پر سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیریان ٗ منشیات کا استعمال اورشوکت خانم کے پیسوں سے سٹہ کھیلنے کے غیرتصدیق شدہ الزامات کے علاوہ کوئی ثابت شدہ الزام ہرگز نہ تھا لیکن آنے والے الیکشن(جب بھی ہوں) اُس میں عمران خان بہت سے آڈیو ویڈیوالزامات لے کرالیکشن کے میدان اتریں گے۔جس میں سائفر کی ہنڈیا تو بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے اور ابھی اس سلسلے میں اوربہت کچھ منظر عام پر آنے کومچل رہا ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کے انقلابی نظریات اپنے محبوب قائد عمران خان کی شہوانی خواہشات کی نذر ہو گئے۔میں اپنی زندگی میں کبھی کسی مسلم لیگ کے نظریات سے متفق نہیں ہوا البتہ معراج محمد خان کو عمران خان کے انقلابی نظریات نے شاید متاثر کردیا تھا جس کی وجہ سے ہمیں بھی اس دلدل میں اترنا پڑا لیکن 2002ء کے انتخابا ت کے بعد معراج محمد خا ن عمران خان سے الگ ہو گئے لیکن اپنے ساتھیوں کو اسی بے رحم قائد کے سپرد کر گئے جو انتخابات جیتنے سے پہلے ورکروں کی ثنائی بیان کرتے نہیں تھکتا تھا لیکن جب اقتدار کی دیوی خان پر مہربان ہوئی تو اُس نے ورکروں کے ساتھ اُسی پٹھان جیسا سلوک کیا جو 600کا قالین 6000 کا بیچ کر پھر کبھی اُس گلی میں دوبارہ نہیں آتا۔ انقلابیوں کی جو فہرست عمران خان نے پاکستانی عوام کے سامنے رکھی وہ انتہائی دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز ہے۔پنجاب میں بزدار ٗپرویز الٰہی ٗ میاں اسلم اقبال ٗ میاں محمود الرشید ٗیاسر ہمایوں ٗ ڈاکٹر یاسمین راشد اورایسے ہی دوسرے نام جنہیں سامنے آنے پر پہچان سکتا ہوں پنجاب پر قہر بن کر نازل ہوئے ہیں۔ مرکز میں تو رہی سہی کسرشاہ محمود قریشی ٗ اسد عمرٗحماد اظہرٗ بابر اعوان ٗزلفی بخاری ٗ عثمان ڈار ٗسرور خان ٗ بریگیڈئر سرور سیف اللہ نیازی اور عامرکیانی نے پوری کردی ہے جو کسی رد انقلاب میں تو کارآمد ہو سکتے ہیں لیکن کسی انقلاب کا پیش خیمہ کسی صورت نہیں بن سکتے۔ نوجوان تحریکوں کا انجن ہوتے ہیں بہتر ہے وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں اورریل کا ڈبہ بننے کے بجائے انجن بننے کو ترجیح دیں۔ یہ اقتدار کے راج دلارے آپ کی زندگی کے اہم ترین سال نگل کر نکل جائیں گے اور پیچھے رہ جائے گا اک پچھتاوا۔۔ لیکن راکھ کے ڈھیر سے پھر چنگاریاں تلاش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
تحریک انصاف کی تنظیم سازی کے حوالے سے ایک بات میری سمجھ سے باہر رہی ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ مغرب کوسب سے زیادہ جاننے کا دعویٰ کیا اورکھلے بندوں کیا لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جو شخص خود قومی اسمبلی کے 9 حلقوں سے الیکشن لڑنے کیلئے تیا ر ہے وہ تنظیمی الیکشن سے اتنا خوفزدہ ہے کہ اُس کا نام لینے والوں کو بھی پارٹی میں برداشت نہیں کرتا۔ٹکٹ ہولڈرز اور جیتنے والے امیدواروں کو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بنا رکھا ہے۔ سالہا سال سے محنت کرنے والے ورکر زنئے آنے والے نودولتیوں کی گاڑیوں سے لٹکے ہوتے ہیں۔ غیرت مند ورکرز احتجاج کرتے ہیں تو پارٹی پر قابض گروپ احتجاجیوں میں اپنے مخبر شامل کرکے ہر طرح کی سازش کرتا ہے۔ احتجاج کا سائز چھوٹا کراتا ہے۔ ورکر آنکھ کی شرم میں مارے جا رہے ہیں۔یہی سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ اگر ہم پارٹی کیلئے خلاف احتجاج کریں گے تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ورکروں کا گلی محلے میں سامنا کیسے کریں گے؟ کیسے تسلیم کریں گے کہ وہ عمران خان جس کیلئے اُنہوں نے سارے شہر کی مخالفت مول لی وہ انہیں چھوڑ کر مالدار لوگوں کی گود میں بیٹھ چکا ہے۔ غیرت مند آدمی کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے بے غیرت کیلئے ہر طرح کے حالات قابل قبول ہوتے ہیں۔ وہ ہر حال میں خوش رہنے کا اصول اللہ کے بجائے اپنے لیڈر کیلئے اپنے اوپر لاگو کر لیتا ہے اورراضی برضا ہو کر ذلت آمیز سیاسی زندگی بسر کرتا رہتا ہے لیکن سیاست دو طرفہ عمل کا نام ہے۔یکطرفہ عشق ہو سکتا ہے سیاست نہیں اورپھر سیاست میں ورکرکو اپنا حصہ لینا ہوتا ہے تاکہ اپنے لوگوں کی نمائندگی کرسکے۔ جمہوریت میں نامزدگی جمہوریت کا قتل ہوتی ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس قتل عام میں شامل ہیں لیکن گلہ صرف عمران خان سے ہے کیونکہ دوسروں سے ہمیں یہ امید بھی نہیں تھی۔ وہ اتنے اچھے ہوتے تو ہمیں عمران خان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ لیکن عمران خان نے دوسری سیاسی جماعتوں سے آئے ہوئے فصلی بٹیروں کو اپنے ورکروں پر اہمیت دے کر انہیں اپنے گھروں میں رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ 
 ہر سو اقتدار تک رسائی کی ہاہاکار مچی ہے لیکن کسی سیاستدان کا دھیان ابھی تک سیلاب متاثرین کی طرف نہیں گیا۔ میاں محمد شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات میں اپنے فرائض سرانجام دیں لیکن کیا دوسرے سیاستدانوں کیلئے پاکستانی شہری ووٹرسے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ہمارے بہن بھائی مر رہے ہیں اور آپ ہیں کہ آپ کے کھیل تماشے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ سیلاب میں غرقاب دم توڑتی مخلوق تمہاری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ لاتعداد سٹرکوں کنارے بیٹھی ان گنت نیم برہنہ مسلم زادیاں تمہاری غیرت کا امتحان لینے کھلے آسمان تلے بیٹھی گنبدخضریٰ کے مکین ؐ کے آخری فیصلے کی منتظر ہیں۔وبائی بیماریوں میں مبتلا بچے ٗ بوڑھے ٗجوان اورخواتین مالک کائنات سے سوال کررہے ہیں کہ ”اے رب ارض و سما! ”اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں“ تیرے نبیؐ کے نام پر ہم سے دھوکا ہوا ہے۔اصلی ریاست مدینہ کی آل عمران مظلوم اورجعلی ریاست مدینہ کی”آل عمران“ظلم کا ایجنڈہ لے کرریاست پاکستان پر نازل ہوئی ہے۔“بے شرمی اوربے غیرتی کی کوئی تو حد ہوتی ہوگی؟مدد یا رحیم۔۔مدد یا رحمان۔

مصنف کے بارے میں