اپنا آدمی اور اپنی عورت

اپنا آدمی اور اپنی عورت

موسموں کا شمار ہو تو گرمی سردی بہار اور خزاں پر آ کر بات ختم ہو جاتی ہے حالانکہ برسات کی اپنی الگ شناخت ہے، برسات کے موسم میں محبوب سے مکالمہ ہماری زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ”ہمیں چھوڑ کے مت جائیو برسات کا موسم ہے“، برسات میں نہانا دل لبھانا، وہ رات، وہ برسات وہ ساون کا مہینہ ایسے میں تو آتا ہے شعلوں کو پسینہ، ان مکالموں کے علاوہ اور کئی کام ہیں جو موسم برسات میں کئے جاتے ہیں، آج کل ایک مختلف برسات چھائی ہے، بادل گھر کے آ رہے ہیں نہ سرد ہوا چل رہی ￿ے مگر انصاف کی برسات ہے کہ خوب خوب برس رہی ہے، ماہرین کا خیال ہے یہ جھڑی ابھی کچھ روز اور رہے گی پھر مطلع صاف ہو جائے گا۔

انصاف کی برسات میں خان اور قریشی کو دس دس برس سزائے قید سنائی گئی ہے، دونوں کو مشقت بھی کرنا ہو گی، کس سے کیا مشقت لی جائے گی یہ فیصلہ ابھی باقی ہے، ایک اور مقدمے میں خان اور خانم کو چودہ چودہ برس کی سزا سنائی گئی ہے، اس میں مشقت کے ساتھ سزا در سزا موجود ہے خان کو جیل میں رکھا جائے گا اور خانم کو بنی گالہ کے وسیع و عریض گھر میں، قانون میں ترمیم کا وقت آ گیا ہے اب میاں اور بیوی کو سزا ہو تو انہیں ایک ہی جیل کے ایک ہی کمرے میں رکھنا چاہئے اس طرح بھی سزا در سزا دینے کا مقصد پورا ہو سکتا ہے، بلکہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے دور رکھ کر شاید غیردانستہ سہولت دی گئی ہے۔ یہ سہولت اس سے قبل کسی خاتون قیدی کو میسر نہ تھی، بیگم نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، فریال تالپور، مریم نواز اور دیگر سیاسی خواتین کو عام مجرموں کی طرح جیل کی عام بیرکوں میں عام حالات میں رکھا گیا۔

بشریٰ بیگم بذات خود سابق وزیراعظم نہیں رہیں وزیراعظم ان کے ماتحت ضرور رہے، وہ ممبر قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی یا ممبر سینٹ بھی نہیں رہیں پھر انہیں سزائے قید ایک پرتعیش گھر میں کاٹنے کی سہولت کیوں اور کیسے مل گئی، اب لاکھ کہیں کہ گھر کے ایک حصے کو سب جیل قرار دیا جائے گا، وہاں ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل تعینات ہوں گے، گارڈ موجود ہوں گے، ہر شخص کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہو گی، یہ سب باتیں درست لیکن مقام فکر ہے کہ اگر ایک معاملۂ بدعنوانی میں وہ شریک رہیں ان کی شراکت مجرمانہ ثابت ہو گئی اسی کی بنیاد پر انہیں سزا سنائی گئی تو پھر یہ امتیازی سلوک کیوں، شوہر کو اڈیالہ جیل اور بیگم کو بنی گالہ، ذرائع بتاتے ہیں یہ کام قانون کے زور پر نہیں ہوا یہ موکل کا کارنامہ ہے۔

موکل گرتی ہوئی حکومت تو نہ بچا سکے کیونکہ موکل ہی تو اسے زمین بوس کر رہے تھے وہ ضمانتیں بھی بحال نہ رکھوا سکے، وہ انصاف دینے والوں کو رام نہ کر سکے لیکن ایک بڑی سہولت دلوا گئے ہیں پس کہا جا سکتا ہے جس طرح کھوٹا پیسہ کبھی چل جاتا ہے اسی طرح عضو معطل موکل کبھی کام نکلوا لیتا ہے۔ موکل کی اس شاندار پرفارمنس پر اسے ترقی دینا ضروری ہے ایسا نہ کیا گیا تو موکل کا مورال ڈائون ہو جائے گا جس کا اثر دیگر موکلین پر بھی پڑے گا وہ سوچیں گے کچھ کر کے بھی کچھ نہیں ملنا تو پھر کچھ کرنے کی ضرورت کیا ہے وہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھنے یا ڈیوٹی کے اوقات میں سوشل میڈیا سے دل بہلانے کو ترجیح دیں گے۔

انصاف کی جاری برسات میں فنڈنگ کیس اور مدتِ عدت میں نکاح کا مقدمہ اب تیزرفتاری سے آگے بڑھے گا، فنڈنگ کیس، اقتدار میں آنے سے بہت پہلے کا ہے، زمانہ اقتدار میں اس حوالے سے التوا در التوا حاصل کیا گیا مگر اب نہیں یہ کہیں قریباً مکمل ہو چکا ہے، خان کے وکلا صفائی کامیاب دفاع میں ناکام رہے ہیں ایک موقع پر یہ تحریر دے آئے ہیں کہ فنڈنگ کے معاملے میں ہمارے موکل صاحبان سے غلطی ہو گئی۔ اس کی معافی دی جائے اس حوالے سے جو رقم آئی اور استعمال کر لی گئی وہ بحق سرکار ضبط کر لی جائے اور جان بخشی کی جائے، یاد رہے کہ یہ معاملہ قریباً درجن بھر اکائونٹس کا ہے جو مختلف پارٹی لیڈران اور اہم شخصیات کے نام سے کھولے گئے ان میں دھڑا دھڑ رقوم آتی رہیں اور نکلتی رہیں، الیکشن کمیشن کے روبرو جرم تسلیم کیا گیا، انصاف کی برسات کا موسم ہو تو رعایت ملنے کا امکان کیسے ہو سکتا ہے، اس مقدمہ میں خان اور ان کے دیگر ساتھیوں کو سزا اب نوشتہ دیوار ہے۔

ایک اور مقدمہ عدت کے دوران نکاح کا ہے، جس میں نکاح پڑھانے والے مولانا اور اس نکاح کے انتظامات کرنے والے اور گواہ خاص جناب عون اپنا بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں اور تصدیق کر چکے ہیں کہ یہ دراصل عجلت میں ہوا، اس عجلت کو کریدا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ نکاح بھی موکل کے پُرزور اصرار پر ہوا تھا، موکل کو اس کے باس نے ایک شام بلایا اور اس کی خوب ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہا کہ خان کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے تم ابھی تک اس کا مطلوبہ جگہ نکاح نہیں کرا سکے، اگر وہ وزیراعظم بن گیا اور نکاح نہ ہو سکا تو پھر وہ یہ نکاح نہیں کرے گا، اس کی نظر کسی اور صاحبہ کرامات پر مرکوز ہو سکتی ہے لہٰذا سستی چھوڑو اور فوراً اس کام کو مکمل کرو تاکہ آنے والا وزیراعظم مکمل طور پر ہاتھ میں رہے اور ہمیں معلوم ہوتا رہے کہ وہ کیا کر رہا ہے کیا کرنے والا ہے کیا سوچ رہا ہے اور کیا سوچنے سے عاری ہے۔ موکل کی قسمت اچھی کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا، نکاح ہو گیا، خان وزیراعظم بھی بن گیا اور قریب ترین جگہ سے مانیٹر بھی ہوتا رہا۔
بحیثیت مجموعی قوم کی یادداشت کمزور ہے وہ ایک روز قبل کی بات بھول جاتی ہے۔ یاد رہے ہر بڑے اور اہم عہدے پر موجود یا آنے والی شخصیت کے ساتھ ایک اپنا آدمی لگا دیا جاتا ہے جو معاملات پر نظر رکھنے کے علاوہ غیرمحسوس انداز میں مختلف مشورے دیتا رہتا ہے یوں اس اہم شخصیت کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں بوقت ضرورت باگیں ڈھیل کر دی جاتی ہیں کبھی باگیں کھینچ لی جاتی ہیں، اسے اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق دائیں بائیں موڑا جا سکتا ہے، گھوڑا اڑیل ہو جائے یا منہ زور ہو جائے تو پھر اس کا علاج کسی اور طریقے سے کیا جاتا ہے۔

گزشتہ چالیس برس میں جتنے بھی وزرائے اعظم آئے ان کے ساتھ ”اپنا آدمی“ لگایا گیا جس نے کانوں کان خبر نہ ہونے دی وہ سر جھکائے اپنا کام کرتا رہا، اس ”اپنے آدمی“ نے صدر اسحق کو ہر اہم موقع پر خبردار کیا، جنرل پرویز مشرف کو اطلاع دی کہ فریق مخالف کیا کرنے والا ہے، بے نظیر بھٹو اور خاقان عباسی کے ساتھ بھی ”اپنا آدمی“ ڈیوٹی پر موجود تھا، ”اپنا آدمی“ اپنے مینڈیٹ کے ساتھ کبھی گائیڈ کرتا ہے اور کبھی مِس گائیڈ کرتا ہے، وہ اپنے باس کی ہدایات پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتا ہے آگے سے سوال نہیں کرتا، اپنے آدمی کے منصب اور ٹریننگ کا حسن یہی ایک نکتہ ہے ملک کا وزیراعظم یا کوئی اور اہم شخص جب بھی منجدھار میں آتا ہے وہ آخری وقت تک اس آدمی کو صرف اپنا آدمی ہی سمجھتا رہتا ہے حالانکہ وہ درحقیقت کسی اور کا آدمی ہوتا ہے، خان کے ساتھ اپنا آدمی نہیں ”اپنی عورت“ لگائی تھی جس نے اپنا فرض ادا کیا، ”اپنی عورت“ بنی گالہ رہے گی خان جیل میں رہے گا۔ مزید دو مقدمات میں سزا کے بعد معافی ہو سکتی ہے، دست غیب ماضی کی طرح متحرک ہو سکتا ہے، اجازت جدہ تک ہو گی تاکہ اللہ اللہ کر سکیں کچھ سمجھے آپ؟۔