ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت ملتوی

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت ملتوی
سورس: file

اسلام آباد: سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔ 

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ میں شامل ہیں۔ 

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اپنی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچے۔سپریم کورٹ کے داخلی دروازے پر  بلاول بھٹو کی پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے ملاقات ہوئی۔ دونوں کرمجوشی سے بغل گیر بھی ہوئے۔ 

صنم بھٹو، بختاور اور آصفہ بھٹو کے وکیل رضا ربانی بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ پچھلی سماعت میں کچھ سوالات کیے تھے تو کیس میں پہلے عدالتی معاونین کو سن لیتے ہیں۔ عدالت کی جانب سے مقرر معاون زاہد ابراہیم نے عدالتی معاونت سے معذرت کر لی اور بتایا کہ وہ ذوالفقار بھٹو جونیئر اور فاطمہ بھٹو کے وکیل مقرر ہو گئے ہیں۔ 

بعد ازاں عدالتی معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پر آ گئے ، جنہوں نے کہا کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کے ورثاء کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔

عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ بھٹو کیس میں میرے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے وکیل تھے، اگر مجھ پر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں، آپ فیئر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔


عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس میں 4 سوالات پوچھے گئے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں ہدایت کی کہ سب سے پہلے آئین کا آرٹیکل 186 پڑھیں جس کے تحت یہ ریفرنس بھیجا گیا، کیا ہمارے پاس اس صدارتی ریفرنس کو نہ سننے کا آپشن ہے؟

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ آئینی طور پر تو عدالت کے پاس ریفرنس پر رائے دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، مگر ریفرنس میں پوچھا گیا سوال مبہم ہو تو عدالت کے پاس دوسرا آپشن ہو گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کی رائے ہو کہ سوال مبہم ہے تو بھی عدالت کے پاس آپشن رائے دینا ہی ہو گا۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایک منفرد کیس ہے، چیف جسٹس نے اسی کیس میں ایک انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ بھی طلب کر رکھا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی طور پر اس ریفرنس کی بنیاد سابق جج نسیم حسن شاہ کا انٹرویو ہے

 خیال رہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کر ادیا۔


پاکستان پیپلز پارٹی نے 108 صفحات پر مشتمل تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔  تحریری جواب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔ تحریری جواب میں مختلف کتابوں کے حوالہ جات سمیت سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یو ایس بی اور سی ڈی کے ساتھ مذکورہ انٹرویو کی انگریزی اور اردو میں ٹرانسکرپٹ بھی جمع کروائی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یو ایس بی اور سی ڈی بھی جمع کروا دی گئی۔ 

واضح رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ ریفرنس اپریل 2011 میں دائر کیا تھا۔

مصنف کے بارے میں