عوام کے ساتھ فراڈ ۔۔آخر کب تک؟

عوام کے ساتھ فراڈ ۔۔آخر کب تک؟

بادشاہ کو اپنی حکومت بچانے کی فکر لاحق ہو جائے تو اسے ملک میں ہونیوالی شورشوں پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہوتی ہے نہ اسے اس بات کا خیال رہتاہے کہ اس کی رعایا کس حال میں ہے عام طور پر بادشاہ اپنے باغیوں کی سرکوبی میں ہی مصروف رہتے ہیں اس دوران اگر عوام سے کوئی فراڈ کر جائے تو پھر عوام پیچھے اور حکمران آگے ہوتے ہیں ۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہر بڑے فراڈ کے پیچھے حکمران یا ان کے قریبی رفقاء کار شامل ہوتے ہیں ۔آج کے اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے نام پر اربوں روپے کا فراڈ ہو گیا ہے کرپٹو کرنسی کی ابھی تک پاکستان میں کوئی قانونی حیثیت نہیں لیکن سب کو علم ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ کافی دیر سے اس دھندے میں ملوث ہیں لیکن آج تک کسی محکمے نے کوئی کارروائی نہ کی ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی ایک مرتبہ پھر لوٹے گئے۔ اور یہ کوئی پاکستانیوں کو سرعام لوٹنے کا کوئی پہلا واقعہ تو ہے نہیں کواپریٹو کمپنیوں سے بات شروع کریں یا تاج کمپنی سے یا ڈبل شاہ سے بی سی سی آئی بنک سے مہران بنک تک ایک سے ایک نئی کہانی ملے گی ۔بعد میں ایک لیکویڈیشن بوڑد بن جاتا ہے جو عوام کے آنسو پونچھنے سے زیادہ افسروں کے کھانے پینے کی جگہ ہوتی ہے عوم بے چارے تو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں اور حکمران محمد شاہ رنگیلے کی طرح برتائو کر رہے ہوتے ہیں جسے بتایا جاتا رہا کہ انگریز فوج اب دلی سے 20 کوس دور رہ گئی ہے۔ وہ لال پری کا ایک اورگلاس چڑھاتا اور کہتاہنوز دلی دو راست اور پھر انگریز فوج نے قلعے پر چڑھائی کردی اور مغلیہ خاندان کو نیست ونابود کردیا۔ یہی مکافات عمل ہے جس سے ہمارے حکمران ابھی تک بے خبر ہیں۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب نواز شریف کے پہلے وزارت عظمیٰ کے دور میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک کواپریٹو بنک کھلنے لگا مینیجر عوام کو لالچ دیتا کہ آپ کو اپنی بچت پر اتنا منافع ملے گا اور وہ منافع سرکاری بنکوں سے بہت زیادہ ہوتا تھا ،عوام بے چاری اپنی زندگی آسان بنانے کے لئے حکومتی چھتری کے نیچے چلنے والے ان اداروں میں سرمایہ کاری کرتے رہے ۔اپنی پنشن اپنی بچت اپنی بیٹی کی شادی اور حج کے لئے رکھی جانے والی رقوم ان بنکوں میں جمع کرواتے رہے ۔وہ بھول گئے تھے کہ اس سے قبل70کی دہائی میں بھی اسی طرح کا فراڈ ہو چکا ہے ،پھر ایک روز پتہ چلا کہ تمام ادارے راتوں رات بند ہو گئے عملہ غائب ہو گیا ۔حکومت نے ایک لیکویڈیشن بورڈ بنا دیا جس کا کام تھا کہ ان اداروں کہ جائیدادیں فروخت کر کے عوام کو ان کے پیسے واپس دلوائے جائیں لیکن علم ہوا کہ ان اداروں نے جو جائیدادیں خریدی تھیں وہ تو بے نامی تھیں ۔نتیجتاً عوام اس دفتر کے باہر ایڑیاں رگڑتے رہے بہت سے غم سے نڈھال ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے ۔کچھ کی خودکشی کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں ،اس دفتر میں موجود افسران اور عملہ کی چاندی تھی خفیہ جائیدادیں خفیہ طور پر فروخت ہوتی رہیں ۔آج اس مسئلے کو 30 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن عوام کو ان کے پیسے نہ مل سکے سوائے ایک دو کمپنیوں کے جن میں مرکنٹائل بنک شامل تھا ۔ایسے میں عوام نے ان کمپنیوں کے ذریعے پیسہ کھانے والوں کی عبرتنات موت کا انجام بھی دیکھا۔اس وقت کی اپوزیشن نے نواز شریف کے خاندان اور وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے خاندان پر قرضوں کے حصول کے لیے سیاسی دباؤ کا استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں کریڈٹ کوآپریٹو سوسائٹیز کے خاتمے کا سبب بنی۔حقائق سے علم ہوتا ہے کہ اس وقت کے حکمران خاندان اس سکینڈل کے مکمل ذمہ دار تھے۔اسی طرح بی سی سی آئی بنک کی اپنی کہانی ہے۔دی اکانومسٹ 1991 کی رپورٹ کے مطابق وسیع پیمانے پر دھوکہ دہی کے طریقوں کی دریافت کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کے زیر انتظام بی سی سی آئی کی تقریباً تمام شاخیں ختم کر دی گئیں۔ اسطرح پاکستان بی سی سی آئی کے خاتمے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن گیا ،مہران بنک کی اپنی کہانی ہے اس سب میں نقصان صرف عوام کا ہوا مطلب خواص نے اپنا جرم چھپانے کے لئے عوام کو قربانی کا بکرا بنا دیا ۔
تاج کمپنی ایک قران شائع کرنے والی کمپنی تھی اس نے عوام کو پیشکش کی کہ سرمایہ کاری کریں انھیں ماہانہ منافع ملے گا کئی سال ملتا بھی رہا لوگوں نے کہا قران پاک شائع کرنے والی کمپنی ہے کہاں فراڈ کرے گی اور اپنی بچتیں اس میں جمع کروا دیں پھر راتوں رات تاج کمپنی والے قرآن کے نام اربوں لوٹ کر فرار ہو گئے بہت سے لوگ اس میں پیسوں کی واپسی کی راہ دیکھتے دیکھتے خالق حقیقی سے جا ملے۔آج بھی اس سلسلے میں قوم انصاف کی منتظر ہے ۔
ڈبل شاہ آیا ،کرپٹو کرنسی سکینڈل آیا بی فار یو نامی کمپنی آئی سب کی ایک ہی کہانی ہے کہ عوام کا پیسہ پہلے انھوں نے کھایا پھر رہی سہی کسر عوام کی مختلف افسروں کے سامنے جوتیاں گھساتے ہوئے پوری ہو جاتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس میں قصورو ار کیا صرف عوام ہیں۔یقینا حکومت اس میں زیادہ قصور وار ہے ہمارے محکموں کی آنکھیں تب کھلتی ہیں جب چڑیاں کھیت چگ کے جا چکی ہوتی ہیں ۔ان محکموں کے سامنے جب فراڈ ہو رہا ہوتا ہے تو یہ کچھ نہیں بولتے آخر ایسا کیوں ہے ؟یقینا اس میں ان کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوتا ہو گا تازہ ترین اگر کرپٹو کرنسی کا دیکھیں تو کیا متعلقہ محکموں نے عوام کو خبردار کیا کہ وہ غیر قانونی کام کر رہے ہیں نہ کریں ابھی جب حقائق سامنے آئیں گے تو علم ہو جائیگا کہ کون کون اس میں ملوث ہے ۔سوال تو یہ ہے کہ کب تک عوام لٹتی رہے گی اور حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے انھیں لٹتے ہوئے دیکھتے رہیں گے ۔

مصنف کے بارے میں