مریم نواز کا کیس چھوٹا سا ہے،والد نے غیرقانونی جائیداد بناکر دی تو کیا قصور بیٹی کا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ 

مریم نواز کا کیس چھوٹا سا ہے،والد نے غیرقانونی جائیداد بناکر دی تو کیا قصور بیٹی کا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ 
سورس: File

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ مریم نواز کا کیس چھوٹا سا ہے ۔ اگر والد نے غیر قانونی جائیداد بنا کر دی تو کیا قصور بیٹی کا ہے؟ڈویژن بنچ نے نیب پراسیکیورٹر سے سخت سوالات کیے۔ 

نیو نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن ر صفدر کی اپیلوں اور نیب کی نواز شریف کی فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی ۔ عدالت نے فریقین کو کیس کی پیپر بکس دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا جس دستاویز کا ذکر ہورہا ہے اس پر دستخط سے نہ ہی حسین نواز اور نہ ہی مریم نواز انکاری ہے جو فوجری کے زمرے میں نہیں آتا۔ 

سماعت کے دوران مریم نواز اور کیپٹن صفدر لیگی رہنماؤں کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی جانب سے عرفان قادراور نیب کی جانب سے عثمان غنی چیمہ، سردار مظفر اوردیگر عدالت پیش ہوئے۔  مریم نواز کے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں بیک گراؤنڈ بتانا چاہتا ہوں کہ کس sequence میں یہ معاملہ چل رہا تھا۔میں نے کچھ نقاط اٹھائے تھے جس پر عدالت نے نیب سے سوالات کیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ  آخری سماعت میں کہا گیا کہ نیب نے میرے سوالات پر جواب دیا،میں نے عدالت سے کہا تھا کہ ضرورت ہوئی تو مزید دلائل بھی دوں گا،نیب نے میرے سابق دلائل پر تحریری جواب دیا ہے،نیب کا جواب میں نے دیکھ لیا ہے، اس پروسیڈنگ کو عدالت نے ریگولیٹ کرنا ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ  آپ تجویز دیں کہ سماعت کو کس طرح آگے بڑھایا جائے؟،عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں مزید دلائل کا آغاز کرتا ہوں جو مکمل ہونے پر نیب کو موقع دیا جائے ۔ میری کوشش ہو گی کہ وہ باتیں نہ دہراؤں جو پہلے دلائل میں بیان کر چکا ہوں۔

اس موقع پر نیب کی جانب سےاپنی ٹیم کے ساتھ روسٹرم پر کھڑی ایک خاتون وکیل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ خاتون وکیل ہماری طرف ساتھ کھڑی ہے جو ہماری ٹیم کا حصہ نہیں  ہم نے رجسٹرار آفس کو اس خاتون سے متعلق لکھا ہے ۔

اس پر عدالت نے کلثوم خالق نامی خاتون وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا وکالت نامہ نیب کی طرف سے ہے ؟جس پر خاتون وکیل نے کہا کہ میرا بیان حلفی جمع ہے ۔ وکیل خاتون کی جانب سےواضح جواب دینے میں ناکامی پر عدالت نے نیب سے کہا کہ یہ آپ کا اور سٹیٹ کا معاملہ ہے خود حل کریں۔آپ نے ایک بیان دیا ہے غلط ثابت ہوا تو بار کونسل کے پاس کیس جا سکتا ہے،آپ نیب سے منظوری لے کر آجائیں ابھی پیچھے بیٹھ جائیں ۔

عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ درخواست کا مکمل متن ٹرائل کے دوران abuse of process of court سے متعلق ہے،کیا آج کی جوڈیشری سے وہ غلطیاں سرزد نہیں ہوئیں جو پہلے کی جوڈیشری سے ہوئیں؟ماضی میں ایسے کیسز عدالتی تاریخ میں متنازعہ رہے ہیں۔ احتساب عدالت نے سزا سناتے وقت عدالتی اختیار کا غلط استعمال کیا، ریفرنس دائر ہونے سے لے کر ٹرائل تک کا عمل اختیار کا غلط استعمال تھا۔ 

جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ انصاف کے قتل کے حوالے سے برطانیہ میں دو کیسز کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ پراسیکیوشن نے شواہد پلانٹ کیے تھے اور وہ سزائیں کالعدم ہوئی تھیں ۔

 عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی اختیارات کے غلط استعمال پر کچھ دلائل دونگا،میری کوشش ہوگی کہ اپیل کی میرٹ پر دلائل دوں۔عدالتی وقت بچانے کے لیے میرٹ کا کچھ خاص حصہ ٹچ کرونگا۔پاکستان میں change of regime کی ایک تاریخ یے،پاکستان میں چینج آف ریجیم کے لیے جوڈیشل سسٹم کو غلط استعمال کیا گیا۔

انہوں ںے کہا کہ حکومت کو گرانے اور بنانے میں ہماری جوڈیشری کے استعمال پر بات کرونگا۔ پاناما کیسز میں جوڈیشری اور نیب کے استعمال پر بات کرونگا۔ عدالتوں کے غلط استعمال کے پراسسز پر بات کرونگا، احتساب عدالت کو غلط استعمال کرکے میرے موکل کو سزا دلوائی گئی اس پر بھی بات کرونگا،پانامہ کیسز میں چھ بڑے اور اہم نقاط پر دلائل دونگا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ہمارے ہاں miss courage of justice کا کوئی کانسیپٹ نہیں ہے،عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہاکہ جس پراسسز کا آپ حوالہ دے رہے اس میں بہت ہی زیادہ اوور لیپ بھی ہے،میرے موکل پر پراپرٹی کی ملکیت کا الزام لگایا گیا ہے۔

عدالت نے کہاکہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ دو اہم نقاط پراسیکوشن میں مس ہے۔عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہاکہ لاء کے عارضی اور چھوٹی موٹی غلطیوں کو اکٹھا کرکے اس پر دلائل دونگا۔پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر حکومتی فیصلوں سے مختلف نہیں ۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے لیے کیسز کا استعمال کیا گیا۔ پاناما میں عمران خان کے کیس میں وزیراعظم کو ہٹایا گیا جبکہ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ نیب نے اس کیس میں بنیادی جزئیات ہی پوری نہیں کیں ۔ اثاثے کی اصل قیمت اور ذرائع پہلے بتائے ہی نہیں گئے ۔ اس بات پر تو عدالت چاہے تو مریم نواز کو آج ہی بری کر سکتی ہے ۔ نیب آرڈیننس کئ سیکشن نائن اے 5 کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حکومتیں ختم کرنے کے لیے تین طریقے اختیار کیے جاتے ہیں،پاناما کیس عمران نیازی بمقابلہ نواز شریف تھا،نواز شریف کو بطور وزیراعظم ہٹایا گیا جس کے بعد عمران خان کی حکومت بنی،نواز شریف کو ہٹانے کے لیے آئینی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔

جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر ہوئی؟، عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے لکھ دیا تھا کہ عدالتی آبزرویشنز سے ٹرائل متاثر نہیں ہو گا، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ واحد پہلو ہے بلکہ اس کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور، حج انتظامات میں بدانتظامیوں سمیت دیگر کیسز بھی تفتیش کے لیے متعلقہ اداروں کو بھجوائے ۔ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے ان دیگر کیسز میں مانیٹرنگ جج نہیں بنائے،جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا وہاں سپریم کورٹ نے کہیں نہیں کہا کہ ریفرنس فائل کریں اس کیس میں سپریم کورٹ نے نیب کو ریفرنس فائل کارنے کا حکم دیا تھا۔

عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی آبزرویشنز کو سپروائز کیا، جے آئی ٹی کی تشکیل کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے،جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ سپریم کورٹ کی پاناما کیس میں جو بھی آبزرویشنز تھیں، آپ کیس کا بتائیں،انوسٹی گیشن اور ٹرائل کی خامیوں کی آپ نے نشاندہی کرنی اور ہم نے اسے جانچنا ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ نیب نے اس کیس میں تفتیش ہی نہیں کی تو پھر ریفرنس کیسے دائر کیا؟،میں چاہتا ہوں کہ عدلیہ مضبوط ہو، عدلیہ کو انڈر مائن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں،میں نے بات شروع کی تھی کہ حکومتوں کو گھر بھجوانے کے تین طریقے ہیں ۔

مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ حکومت کو گھر بھجوانے کا پہلا طریقہ مارشل لا اور دوسرا صدر پاکستان کے ذریعے گھر بھجوانے کے لیے استعمال ہوا۔ 

جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ آپ اس میں نہ جائیں، ہم اس پر نہ ہاں کر سکتے ہیں اور نہ ہی نہ اگر آپ ثابت کر دیں کہ پراسیکیوشن جرم ثابت کرنے میں ناکام ہوا تو باقی باتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ آپ بتائیں کہ نیب کیا شواہد لایا تھا اور کیا وہ متعلقہ تھے یا نہیں؟، آپ نے نیب شواہد پر بات کو اپنے دلائل میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے،آپ اس پوائنٹ کو پہلے نمبر پر رکھیں۔

عدالت نے کہاکہ آپ پہلے یہی دکھا دیں کیس نہیں بنتا تھا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ ثبوت موجود نہ ہوئے تو پاناما کیس ایک طرف رہے گا ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گا اگر ثبوت موجود ہوئے تو بھی یہ عدالت اپنا فیصلہ آزادانہ دے گی ۔سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ابتدائی نوعیت کی تھیں شواہد دیکھ کر نہیں۔

عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز 184/3 میں تھیں ہم ٹرائل کا ریکارڈ دیکھیں گے ۔ جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے نیب اپنا کیس شواہد سے ثابت کر سکا یا نہیں،آپ صرف یہ ثابت کر دیں نیب کیس ثابت نہیں کر سکا باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔  جسٹس محسن اخترکیانی نے نے کہاکہ مریم نواز کا مرکزی ملزم کے ساتھ نہیں بلکہ انکا تو چھوٹا سا کیس ہے۔ مریم نواز کا کردار کیس میں کہاں سے آیا اس پر دلائل دیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ نواز شریف اور مریم نواز کی الگ الگ اپیلیں تھیں۔ مریم نواز کے خلاف پراسیکیوشن کا کیا کیس ہے، انہوں نے کیا دفاع دیا وہ بتا دیں، عدالت نے کہا کہ اگر آپ یہ بتا دیں گے کہ نیب کا کیس ہی نہیں بنتا تھا تو آپکے دیگر دلائل تو اسی میں آ جائیں گے ۔

عرفان قادر نے کہا کہ کیا عدالت چاہتی ہے کہ عدالتی کارروائی میں بے ضابطگیوں پر بعد میں بات کروں،پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے آبزرویشنز دیں،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس پر نظرثانی بھی ہوئی ۔عرفان قادر نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ واحد پہلو ہے بلکہ اس کے ساتھ دیگر عوامل بھی ہیں،یہ کیس مختلف ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کا کیس یہ ہے کہ پراسیکیوشن اپنا کیس ثابت نہیں کر سکی اگر کیس ثابت نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ کی آبزرویشنز کا مسئلہ نہیں رہتا ۔ وکیل نے کہا کہ پہلا کیس ہے جس میں سپریم کورٹ نے تحقیقات کو سپروائز کیا۔  سپریم کورٹ کا خیال تھا کہ چیئرمین نیب کو نواز شریف نے تعینات کیا تھا تو انکوائری نہیں کریگا۔ سپریم کورٹ کو کیا امر مانع تھا کہ نیا چیئرمین نیب لگا دیتے۔

 عدالت نے کہا کہ عرفان صاحب آپ اپنا کیس پیش کریں کہ پراسیکیوشن نے اپنا کام کیسے پورا نہیں کیا جس پر وکیل نے کہاکہ پھر تو میں دو منٹ میں بتا دیتا ہوں، نیب نے اس کیس کی انکوائری کی ہی نہیں، ٹرائل کورٹ کی جانب سے برٹش ورجن آئی لینڈ کی چٹھی کو ثبوت کے طور پر ٹریٹ کیا گیا،یہ سارا کیس ہی اس لیٹر پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ احتساب عدالت نے مریم نواز کو برٹش ورجن آئی لینڈ کے ایک خط سزا دی،برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کو بنیادی شہادت تصور کیا گیا۔برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط میں کہا گیا کہ مریم نواز اپارٹمنٹس کی مالک ہیں ۔ احتساب عدالت نے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط کے جواب میں مریم نواز کچھ پیش نہ کرسکیں،عرفان قادر ایڈووکیٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ اس موقع پر عدالت نے مریم نواز کے وکیل کو جج محمد بشیر کا نام لینے سے روک دیا، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ آپ نے کہنا ہے تو ٹرائل کورٹ کہیں ، جج کا نام نہ لیں۔ 

عرفان قادر نے کہاکہ ایک لیٹر کو ٹرائل کورٹ نے بنیادی شہادت کے طور پر لیا،ایک ایم ایل اے کے جواب میں آیا خط بنیادی ثبوت ہے، احتساب عدالت نے کہا مریم نواز اب اس لیٹر کے جواب میں اپنا ثبوت لائیں ۔ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ کیا یہ ایم ایل اے ریکارڈ پر موجود ہے؟ جس پر وکیل نے کہاکہ جی ہاں ایم ایل اے ریکارڈ پر تو موجود ہے۔

عدالت نے کہا کہ کیا ایم ایل ایز (میچوول لیگل اسسٹنٹ) ریکارڈ پر موجود ہے؟جس پر وکیل نے کہاکہ جی برٹش ورجن آئرلینڈ کے ایم ایل ایز ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ کہا گیا مریم نواز ایون فلیڈ ریفرنس کے ساتھ 2006 سے پہلے لنک تھیں کسی جگہ پر ایڈریس لکھا ہوگا جس سے مریم نواز کو مالک بنایا گیا۔

 عدالت نے عرفان قادر کو ہدایت کی کہ جو جو چیزیں اہم اور ضروری ہیں وہ بتائیں ۔ عرفان قادرنے کہا کہ میرے موکل کے حوالے سے یہاں اس میں کچھ بھی نہیں،یہ لیٹر بھی نیب نے نہیں منگوایا، ٹرائل سے قبل جے آئی ٹی کی درخواست پر آیا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ لیٹر 4 جولائی 2017 کا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ اسے پڑھیں گے؟ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا اس خط کے ساتھ اور بھی چیزیں ہیں یا صرف یہی چٹھی ہے؟ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ یہ تو کورنگ لیٹر ہے، اس کے ساتھ مزید کیا آیا جس پر ٹرائل کورٹ نے انحصار کیا؟

 جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اپیل میں ٹرائل کورٹ کی ججمنٹ ہی پڑھی جاتی ہے اور نقائص یا خامیوں کا ذکر ہوتا ہے، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ ایم ایل اے کے جواب میں جو لیٹر بھجوایا گیا وہ دکھائیں،یہ تو لاء فرم موزیک فونسیکا کی کی آپس کی خط و کتابت ہے، اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے واجد ضیا کو ایم ایل اے کے جواب میں موصول خط پیش کر دیا

جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ 2012ء کی ایک چٹھی کا حوالہ دے رہے ہیں،کیا قانون شہادت کے مطابق اس پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ لاء فرم کا فنانشل ایجنسی کو لکھا ہوا خط ہے،برٹش ورجن آئی لینڈ کا پاکستان میں جو تصور پیش کیا جاتا ہے کہ وہ درست نہیں،وہاں قانون کے مطابق پروٹیکشن دی جاتی ہے۔

عدالت نے استفسار کیاکہ ایم ایل اے میں جس وکیل اور ایجنسی کا حوالہ ہے کیا ان کا بیان ہوا ؟،برطانوی ایجنسی اور لاء فرم کے بیان کے بغیر خط شہادت کیسے ہے ؟،جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ایک چٹھی سے تو یہ ثابت نہیں ہو گا، کسی نے عدالت آ کر بھی تو بتانا ہو گا۔

 جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایک ڈاکومنٹ ہے جس میں نام آ گیا ہے جس دن وہ کمپنی بنی، اس دن سے بتائیں کہ وہ کمپنی کس کی رقم سے بنی؟،آپ ان سوالوں کا جواب دیں، ہم اب التوا نہیں دیں گے،اب ہم عدالت کا وقت ضائع نہیں ہونے دیں گے،اس سوال کے جواب کے بعد اٹھیں گے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مریم صفدر کے خلاف پراسیکیوشن کا کیا کیس ہے ؟ اس کا لب لباب بتا دیں، عدالت نے کہا کہ ایک لیٹر برطانیہ سے آیا وہاں کے کسی بندے نے آکر جمع کرانا تھا یا نہیں؟اگر بیفیشل مالک ثابت بھی ہو جائیں توپھر مریم نواز کا کردار کیا ہوگا؟اگر والد نے جائیداد غیر قانونی بھی بنا کر بیٹی کو دی تو کیا بیٹی قصور وار ہوگی؟نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ جب اس نکتے پر ہم پہنچیں گے تو اس پر بھی بات کریں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہم وہاں آگئے ہیں آج کوئی التوا نہیں ملے گا میں بہت واضح ہوں کیوں وقت ضائع کریں ہم، عدالت نے کہا کہ نیب پہلے ہمارے سوالات کا جواب دے پھر مریم نواز کے وکیل کو سنیں گے۔ عدالت نےنیب پراسیکیوٹر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہ کوئی نمائندہ پیش ہوا اور نہ ہی کوئی وکیل، کیا چٹھی خود سے سب کچھ واضح کرسکتی ہے؟ہمیں ریکارڈ سے بتائیں  فیصلہ کرنا ہمارا حق ہے۔

نیب پراسکیوٹر نےکہا کہ گزشتہ سماعت پر آپکا ایک سوال تھا کہ اگر یہی کچھ لانا تھا تو ایس ایس سی پی سے لاتے، عدالت نے کہاکہ برٹش ورجن آئرلینڈ کا پاکستان میں جو بتایا جارہا ہے کہ وہ سارا غلط ہے مگر ایسا نہیں ہے،آپ نے اسی کیس کو آگے لیکر جانا ہے اور ہم نے دیکھنا ہے کہ یہ ایون فلیڈ اپارٹمنٹ سے جڑا ہے یا نہیں ۔ کمپنی کے پاس پیسے کہاں سے آیا جس نے پیسہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ پر خرچ کیا،آپ نے تاریخ اور دستاویزات سے بتانا ہے کہ کس نے اپارٹمنٹ خریدے،ہم پہنچ گئے، بار بار تاریخ نہیں ہوگی، سوال کیا اس کا جواب دیں آپ ،ہم نے آج عرفان قادر کو نہیں سننا۔ آپ نے سوال کا جواب دینا ہے اور ہم نے یہاں سے اٹھنا ہے،آپ نے صرف اتنا بتانا ہے کہ مریم نواز نے ایسا کیا کیا جس سے وہ ملزم قرار پائیں۔ 

نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ مرکزی ملزم یہ بتانے سے قاصر رہے کہ انہوں نے پراپرٹی کیسے خریدی، عدالت نے کہا کہ جس دستاویزات کا آپ حوالہ دے رہے انہیں پر ان کو اعتراض ہے،کیایہ دستاویزات ٹرائل کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے ؟ جس پر نیب پراسکیوٹرنے کہاکہ گلف سٹیل ملز کو 1979 میں بیچا گیا،سپریم کورٹ کا ایک سوال تھا کہ گلف سٹیل ملز کو کیسے بنایا گیا،بتایا گیا کہ گلف سٹیل مل کو قرض کے پیسوں سے بنایا گیا۔

عدالت نے کہا کہ کیا دستاویزات کے مطابق نیلسن اور نیسکول کے ذریعے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ خریدے گئے؟یہ دستاویزات کہاں ایگزیکیوٹ ہوا ہے؟،کیا یہ دستاویزات وہاں کے کسی ادارے میں یہ رجسٹر ہونا ہے؟یہ دستاویز کہیں رجسٹرڈ نہیں ہوا، جے آئی ٹی نے خود بتایا ہے،بڑا سادہ معاملہ ہے، صرف مریم صفدر کی حد تک آپ کیس کو رکھحسین نواز کو مالک جبکہ مریم نواز کو ٹرسٹی بنایا گیا،نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم نے ٹرائل کے دوران یہ ثابت کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔

 عدالت نےاستفسار کیا کہ مریم نواز کی جانب جعلی دستاویزات سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیں؟، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں الگ کہا جبکہ جے آئی ٹی کے سامنے اسی دستاویزات کو ٹھیک کہا، عدالت نے کہا کہ کیا مریم نواز اس دستاویز کو مانتی ہے؟، نیب پراسیکیوٹر نےکہاکہ جی بالکل مریم نواز نے اس دستاویز کو مانا ہے اور ابھی تک انکاری نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فرانزک نے کہا کہ مریم نواز کے دستخط نہیں ہے، یا حسین نواز کا دستخط ٹھیک نہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ۔نہیں فرانزک میں ایسا کچھ نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ جس دستاویز کو آپ فورجری کہتے ہیں وہ فورجری کے زمرے میں نہیں آتا،کیا کیپٹن صفدر کو سزا صرف ماننے پر ہوئی ؟،اگر حسین نواز بطور گواہ کہتا کہ یہ دستخط میرا نہیں، تب فورجری کے زمرے میں آتا۔

اس موقع پر نیب پراسکیوٹر نے والیم 12 عدالت کو پڑھ کر سنایا، نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہاکہ مریم نواز کا دعویٰ تھا وہ اس جائیداد کی ٹرسٹی ہیں،ہم نے شواہد سے ثابت کیا کہ وہ ٹرسٹی نہیں بینیفشل مالک ہیں،ہم نے اس ٹرسٹ ڈیڈ میں جعلسازی ثابت کی ہے، عدالت نے کہا کہ اگر وہ جعلسازی تھی تو کیا وہ سپریم کورٹ کے سامنے تھی یا جے آئی ٹی کے سامنے؟، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ ٹرسٹ ڈیڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پھر جے آئی ٹی کے سامنے تصدیق کی ۔ اُس جعلسازی کیخلاف الگ سے کارروائی اپیلوں کے بعد ہونی ہے ۔

عدالت نے کہا کہ جب آپ ٹرسٹ ڈیڈ جو جعلی کہتے ہیں تو اس کو مطلب کیا ہے؟ٹرسٹ ڈیڈ کا فونٹ کیا تھا اس پر بعد میں آتے ہیں ۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا کہیں سے ثابت ہوا کہ مریم نواز کے اس ڈیڈ پر دستخط نہیں؟،نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نہیں ایسا کہیں ثابت نہیں ہوا ،جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا کہیں یہ ثابت ہوا اس پر حسین نواز کے دستخط نہیں؟، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ نہیں ایسا بھی کہیں  ثابت نہیں ہوا ۔

جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر ایسا ہے تو پھر ڈاکومنٹ جعلی نہیں، پری ڈیٹڈ کہلائے گا،ٹرسٹ ڈیڈ پر دونوں دستخط کرنے والے آج بھی کہتے ہیں یہ ان کی ڈیڈ ہے ۔ کیپٹن صفدر کو صرف اس بات پر سزا ہوئی کہ یہ ان دستخطوں کے گواہ تھے۔

اس موقع پر دوران سماعت ہی مریم نواز نے دوران سماعت کمرہ عدالت میں نماز شروع کر دی اور کرسی پر بیٹھے ہی نماز پڑھی،عدالت نے نیب سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو جے آئی ٹی میں مریم صفدر نے سنگل پیج دستاویز دی؟ کیا ہم سمجھے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی یہ دستاویز لندن سے آیا ؟اگر یہ دستاویز لندن سے آئی تو اس کا مطلب ہے کہ مریم نواز نے آپ کو نہیں دیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ مریم نواز نے یہ دستاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھیں ۔ عدالت نے تمام فریقین کو کیس پیپر بکس دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 17 فروری تک کے لئے ملتوی کردی۔

مصنف کے بارے میں