لہجہ بتا رہا ہے

لہجہ بتا رہا ہے

مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا۔ پنجاب میں غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ تھے جب فیصلہ کرنے والوں نے پنجاب میں اپنی مرضی کی حکومت لانے کا فیصلہ کیا تو منظور وٹو کے سر پر دست شفقت رکھا۔ منظور وٹو اس وقت سپیکر پنجاب اسمبلی تھے۔ راتوں رات پانسہ پلٹ گیا۔ چند ایک کو چھوڑ کر پوری کی پوری مسلم لیگ منظور وٹو کے ساتھ چلی گئی، عدم اعتماد ہوئی اور غلام حیدر وائیں کو پنجاب کی وزارت علیہ سے ہٹا دیا گیا۔ وائیں صاحب نے اپنا اٹیچی اٹھایا اور مسلم لیگ ہاؤس میں آکر بیٹھ گئے۔ مرحوم صاف ستھری شخصیت کے مالک تھے۔ ایک ٹکے کی ہیرا پھیری کے روا دار نہیں تھے کرپشن کیا کرتے۔ وزیراعلیٰ بن کر بھی اپنے عزیز واقارب کو نوکریاں نہیں بانٹیں، ہاں مسلم لیگ کی تنظیم سازی کے لیے فنڈز ضرور اکٹھا کرتے تھے۔ ان پر کوئی مقدمہ نہیں بنا۔ غریب گھرانے سے تعلق تھا اور اسی وجہ سے انہیں قتل کر دیا گیا۔ آج پنجاب ہو یا مرکز ہو غلام حیدر وائیں جیسا صاف شفاف شخص کہیں موجود نہیں ہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہو چکی ہے اور آنے والے دنوں میں اس کا فیصلہ بھی ہو جائے کہ وہ اقتدار میں رہتے ہیں یا اقتدار سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ بازی عشق کی بازی ہے کے مصداق عمران خان کے لیے یہ تحریک عدم اعتماد تخت یا تختے والا معاملہ ہے۔ جب وہ رخصت ہوں گے تو پتہ چلے گا کہ انہوں نے یا ان کے رشتے داروں اور عزیزو اقارب نے کتنا مال بنایا ہے۔ عمران خان کے لیے یہ حوصلے کی بات ہے کہ پاکستان میں ان کی کوئی لائبیلٹی نہیں ہے، اولاد ان کی باہر ہے۔ اس لیے انہیں کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ اس لیے وہ اقتدار سے فارغ ہوتے ہیں تو بھی ان کو اتنا فرق نہیں پڑے گا۔ تحریک انصاف نہیں ٹوٹتی تو وہ ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود رہیں گے۔ پنجاب کے حوالے سے آپ کچھ کہہ نہیں سکتے، سنا ہے کہ یہاں کچھ ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے اختیارات کا خوب استعمال کیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد ایک جمہوری حق ہے اور اس حق کو اپوزیشن سے نہیں چھینا جا سکتا۔اسمبلی توڑنے والا اختیار پہلے ہی صدر کے پاس موجود نہیں اور عمران خان تحریک عدم اعتماد وصول ہونے کے بعد اسمبلی توڑنے کے اختیار سے محروم ہو چکے ہیں۔اب مقابلہ ہو گا اور خوب ہو گا۔ عدم اعتماد کی تحریکیں ماضی میں بھی پیش ہوتی رہی ہیں لیکن مرکز میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اب تاریخ رقم ہوتی ہے اس کا فیصلہ جلد ہو جائے گا تاہم عدم اعتماد آنے کے بعد وزیراعظم جارحانہ موڈ میں نظر آ رہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے فیز میں نظر آ رہے ہیں۔ وہی زبان وہی لب و لہجہ کچھ بھی نہیں بدلا ہاں وقت ضرور بدل رہا ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے۔ ویسے قبلہ عمران خان کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ وہ کسی اور کے ایجنڈے پر آئے ہیں۔
عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے وہ دربدر پھر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم سے ملنے ان کے مرکز چلے گئے تاہم ایم کیو ایم کی باڈی لینگویج دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی جیسے کسی مجبوری کی وجہ سے وہ ان سے مل رہے ہو۔ قبلہ پیر پگاڑہ کے دفتر نے انہیں آگاہ کر دیا ہے کہ پیر صاحب کی طبیعت ناساز ہے اس لیے وہ ملنے سے قاصر ہیں۔ چودھریوں کے در سے وہ ہو آئے ہیں اور تحریک انصاف میں بننے والے فاروڈ بلاک کی وجہ سے چودھریوں کے پاس ترپ کا جو پتہ تھا وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اب ان کا وزن سپیکر 
شپ سے زیادہ نہیں ہے۔ سیاست میں ٹائمنگ بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے شہباز شریف چودھریوں کے پاس چل کر گئے تھے اب ان کا مستقبل بھی عمران خان کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جنہیں بیساکھیوں سے چلنے کی عادت ہو تو پھر ان کے لیے بغیر بیساکھیوں کے چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سیاست میں کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ کل کے دشمن وقت آنے پر دوست بن جاتے ہیں۔ کیا دنیا دیکھ نہیں رہی کہ کس طرح شہباز اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ 
لگتا ہے کہ اپوزیشن نے اپنا ہوم ورک مکمل کیا ہے۔ سیاست میں کچھ لو اور دو کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ زرداری صاحب پنجاب اور وفاق دونوں مسلم لیگ ن کے حوالے کر دیں۔ مسلم لیگ ن کو دونوں میں کسی ایک کو منتخب کرنا ہو گا۔ عبوری دور کے لیے شہبازشریف آتے ہیں یا کسی اور لایا جاتا ہے یہ سب صیغہ راز میں ہے تاہم شراکت اقتدار کا فارمولہ طے پا چکا ہے۔ اس سارے کھیل کو نواز شریف لندن سے دیکھ رہے ہیں ان کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کو نواز شریف کی تائید و حمایت حاصل ہے اور انہیں اعتماد میں لے کر سارا کام ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن عمران خان سے زیادہ پیپلزپارٹی سے ڈسی ہوئی ہے۔ حکومت سازی کے وقت اگر پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کا ساتھ دیتی تو پنجاب ایک بار پھر ن لیگ کے پاس ہی رہتا لیکن انہوں نے ن لیگ کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اب کی بار لگتا ہے کہ زرداری صاحب سے معاملات طے پا چکے ہیں۔
کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ حکومت اپوزیشن پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگا رہی ہے۔ الٹی گنگا بہنا اسی کو کہتے ہیں۔ بلوچستان سے ان کے ایک حواری پہلے ہی الزام لگا چکے ہیں کہ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے بدلے اربوں روپے وصول کیے گئے۔ الزام تراشیوں کا بازار گرم ہے۔ اپوزیشن پر الزام ہے کہ وہ حکومتی اراکین کو توڑنے کے لیے مارکیٹ میں پیسہ پھینک رہی ہے۔عمران خان نے اعلان کر دیا ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہو گی اور اس کے بعد وہ ان کا برا حشر کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اللہ نے میری دعا سن لی، میں یہ ہی دعا کر رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح عدم اعتماد درج کرا دی جائے، یہ صرف ادھر نہیں پھنسے کہ ان کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی، بلکہ کپتان نے آگے کی تیاری بھی کی ہوئی ہے، جب ہم اس تحریک کے خلاف جیتیں گے تو میں رکوں گا نہیں میں ان کے پیچھے جاؤں گا۔ اب تک میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، اور ہم دنیا کے مسئلے میں پھنسے ہوئے تھے، میرے ہاتھوں میں زنجیر بندی ہوئی تھی وہ اب کھل جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنے ٹارگٹ بھی منتخب کر لیے ہیں، میرا پہلا ٹارگٹ آصف علی زرداری ہوگا جو کافی عرصے سے میری بندوق کے نشانے پر ہے۔یہ ظالم آدمی پولیس اور غنڈوں کو استعمال کرتا ہے، ہر چیز پر کمیشن کھاتا ہے۔ مجھے ایک ایم این اے نے بتایا کہ آصف زرداری نے انہیں 20 کروڑ روپے کی پیش کش کی ہے، میں نے کہا کہ حرام کا پیسہ پکڑ لو اور اس کے بعد اس سے فلاح کا کام کرنا۔شہباز شریف کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا جوتے پالش کرنے والا ’شوباز‘ وہ بھی آصف زرداری کے ساتھ مل گئے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہو گیا ہے کہ ان کا وقت آ گیا ہے، لیکن تمہارا وقت بھی آگیا ہے، اگلے تین مہینے بعد تم جیل میں جاؤ گے، اور تمہارے بیٹے اور داماد سے پیسے واپس لے کر ہم بجلی مزید سستی کریں گے۔ ان کے ساتھ ’ڈیزل‘ بھی مل گیا ہے، یہ چور جو 30 سال اس ملک کا خون چوستے رہے ہیں اب اکھٹے ہوگئے ہیں کہ ملک کو عمران خان سے بچانا ہے۔ فضل الرحمٰن کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ انہیں مولانا کہنا گناہ ہے، جب نیب نے انہیں بلایا تو انہوں نے نیب کو ڈرا دیا کہ میں 2 ہزار لوگ لے کر آؤں گا، ان کے پاس اربوں کے اثاثے ہیں، جب تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی تو میں ایک لاکھ لوگ نیب لے کر آؤں گا۔
یہ وہ لہجہ اور اہداف ہیں جو وزیراعظم عمران خان نے مقرر کیے ہیں، کیا وہ اپوزیشن کو خوفزدہ کر رہے ہیں یا خود خوفزدہ ہیں؟ بادی النظر میں یہ لہجہ ایک ہارے ہوئے شخص کا لگتا ہے اب وہ تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہونے کے بعد اپوزیشن کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھائیں گے تو اسے سیاسی انتقام سے تعبیر کیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب کو ان کے رفقا کار سمجھائیں کہ وہ اپنی توانائیاں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے اور عوام کو سہولت دینے پر صرف کریں۔ اگر عوام ان کے ساتھ ہوں گے تو پھر حکومت ہو یا اپوزیشن انہیں کسی کی کوئی فکر نہیں ہو گی۔ آخر میں شبینہ ادیب کانپوری کے چند اشعار
جو خاندانی رئیس ہیں وہ 
مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمہارا لہجہ بتا رہا ہے 
تمہاری دولت نئی نئی ہے
ذرا سا قدرت نے کیا نوازا
کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں
ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں
ابھی تو شہرت نئی نئی ہے

مصنف کے بارے میں