عورت مارچ اور حجاب

عورت مارچ اور حجاب

1909 میں امریکہ کے شہر نیویارک سے خواتین کے حقوق کے حق اور تحفظ میں شروع ہونے والی تحریک 1977 سے ہر سال باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے پرچم تلے منعقد کی جاتی ہے۔اس سلسلہ میں عالمی سطح پر 08 مارچ کا دن، عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن پوری دنیا میں عورتیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔اس نسبت سے 2018 سے پاکستان کے شہر کراچی میں ”عورت مارچ“ کا انعقاد کیا گیا جس کادائرہ کار اب اسلام آباد، لاہور، پشاوراور فیصل آباد جیسے کئی بڑے شہروں میں پھیل چکا ہے۔۔۔! وقت کے ساتھ ساتھ ان مظاہروں میں بہت سی اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ بہت سے قباحتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔۔۔!
تاہم بات عورت مارچ کی ہویا حجاب کی، افق عالم پر آئے روز ایسا کوئی نہ کوئی سلسلہ، مظاہرہ، مطالبہ یا مباحثہ جاری رہتا ہے جو اسلامی روایات اور تہذیب و تمدن سے یکسر متصادم ہوتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ایک مدت سے بجائے اس کے کہ اپنی قوت کردار اور ابلاغ سے اس کا بھرپور انداز میں مقابلہ کریں،مسلسل ایک معذرت خوانہ اور مدافعانہ سا انداز اور رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔! ہمارے مذہبی حلقے بھی لمبی تان کر سو رہے ہیں۔مظاہروں کا ایسا کوئی ریلا گزر جاتا ہے تو وہ جاگتے ہیں اور دو چار دن کی بیان بازی کے بعد پھر سے طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔۔معاملے کے اصل حل اور تدارک کے لیے کوئی مؤثر آواز اٹھائی جاتی ہے اور نہ ہی حکومت کے ساتھ مل کر کوئی مناسب لائحہ عمل ترتیب دیا جاتاہے۔۔۔!
ہمارا اپنا ایک کلچر، تہذیب اور تمدن ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام،استاد کااحترام،والدین کی عزت، بہن بھائیوں سے پیار، رشتہ داروں سے حسن ِسلوک، پڑوسیوں سے اچھے اور خوشگوار تعلقات، ایک دوسرے کی دیکھے اور بن دیکھے خیر خواہی، شرم و حیا اور حجاب ہماری تہذیب و ثقافت کا ایک لازم حصہ ہے تو پھر ہم اس کے باوقار اظہاراور دفاع میں ناکام کیوں۔۔۔؟ اپنے فطری کلچر کو لے کرہمارے سر فخر
سے بلند کیوں نہیں۔۔۔؟ مغربی دنیا کے موقف اورانسانی حقوق کی آڑ میں ان کے پیدا کردہ بگاڑ کا حصہ ہم کیوں بنیں۔۔۔! آخر کیوں ہم ہر وقت کا معذرت خواہانہ انداز اپنائے رکھیں۔۔۔!
انسانی بنیادی حقوق کے اعتبارسے اسلام کا ضابطہ حیات سب سے بڑھ کر قابل عمل ہے۔ہماری خواتین کو آگے بڑھ کر ڈوپٹے اوڑھنے، برقعے پہننے، اپنے چہروں پر حجاب سجانے اور اس کے اظہار کی ضرورت ہے۔۔۔پوری قوت اور توانائی سے اقوام عالم کو یہ بتانے اور باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک آزاد اور باوقار قوم ہیں۔۔۔ہمارا اپنا ایک کلچر، الگ شناحت، تہذیب اور تمدن ہے۔۔۔!
یہ اسلام ہی کا اعجاز ہے جس نے دائمی اور مستقل بنیادوں پر عورت اور مرد کے حقوق و فرائض کا ایسا سدا بہار تعین کردیا ہے، جس کو کسی بھی طور زوال نہیں۔۔۔! آپﷺ کا خطبہ ء حجتہ الوداع اس بابت ایک فیصلہ کن اور ٹھوس، ضابطہء اخلاق و کردار ہے۔۔۔۔! اسلام نے پورے طور پر عورتوں کے حقوق کی شیرازہ بندی کی ہے اور ان کے زندگی گزارنے کے ہر ہر پہلو کے لیے معاشرتی سطح پر حدود و قیودکا تعین کیا ہے۔۔۔! عورتیں ہماری آبادی کا نصف حصہ اور ایک تسلیم شدہ حقیقت ہیں۔اب اگر ان کے حقوق کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جاتی ہے تو اسے دور کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔۔۔! جائیداد میں عورت کے حق، شادی بیاہ کے معاملات اور دیگر خانگی امور کے ساتھ ساتھ کام کی جگہ پر عورت کی عزت و حرمت کے تحفظ کو یقینی بنانا ہر حال میں قوت نافذہ پر لازم ہے۔۔۔! اسلام جہاں عورت کو پردہ کرنے کا حکم دیتا ہے، وہیں مرد کو نظر جھکانے کا حکم دیتا ہے۔ نگاہ کے اُٹھنے اور جھکانے کے حسین امتزاج کی نظری وعملی صورت کا نام اسلام ہے۔یہ بھی اسلام ہی ہے جو زندگی گزارنے کے ہر ہر عمل کے لیے ایک سلیقہ، قرینہ اور مناسب طریقہ وضع کرتے ہوئے انسانی عمل کی حدود وقیود کا تعین کرتا ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا تعین کرکے زندگی کی راہیں فراخ کرتا ہے۔۔۔!
ہر مسلمان مردو زن، اپنی جگہ پر اسلام کا سفیر ہے۔ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سفارت کاری کے اس سفر میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارا مذہب،دین اور کلچر، ہم سے ہمارے ہونے اور جینے کے طرزفکر اور طرز زیست کا سوال کرتا ہے۔۔سو اپنے لباس، بودوباش اور طرز عمل میں ہم کہاں کھڑے ہیں، آئینہ سب کے روبرو ہے۔۔۔!
دیکھا جائے تو حجاب، چادر یا پردہ کپڑے کا محض ایک ٹکڑا نہیں ہے بلکہ یہ عورت کے وقار، تحفظ، قوت، پاکیزگی، سربلندی اور انفرادیت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ اہل حرص و ہوس کے مقابل یہ اُس کی ڈھال ہے۔یہ اس کی عزت،رفعت اور عظمت کی ایک پہچان ہے۔اور یہ پہچان کسی اور نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس نے عطا کی ہے اور جو عطا اس کی طرف سے ہے اس میں خیر ہی خیر اور فلاح ہی فلاح ہے۔۔۔!
دوسری طرف اکبر الہ آبادی مرحوم کے بقول عورت کا پردہ اگرکچھ مرد وں کی عقلوں پر پڑگیا ہے تو اس میں حرمت و عزت نسواں کا کیا قصور۔۔۔! ہندوستان کی عدالتوں اور یورپ کے بلا حجاب کلچر کے سامنے،اس دور جہد میں صدسلام، اسلام کی ان بیٹیوں کو جو اپنی حرمت اور حقوق کی خاطر حجاب اوڑھے عورت مارچ یا اسی طرح کے دیگر کھوکھلے اور وقتی شہرت کے سلسلوں سے اجتناب برتتے ہوئے، افراد کے ایک خاص گروہ،اداروں، انصاف کے مختلف فورمز اور معاشرتی بہاؤ سے ٹکرا رہی ہیں، اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں اور اپنے اخلاق و کردار سے ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ حجاب ان کا فطری حق ہے اور کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو کسی بھی طور اس کے فطری حق سے محروم نہیں کرسکتا۔اگر باطل وقتی طور پر غالب آ بھی جائے تو بھی آخری فتح حق کی ہوتی ہے۔اور حق یہ کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور عورت وشرم و حیاآپس میں لازم و ملزم ہیں۔۔۔!