کراچی میں رہ کر سیاست کی ٹیسٹ اننگز کھیلوں گی ، پی ٹی آئی چیئرمین کا انجام 2018 میں ہی دیکھ لیا تھا: ریحام خان

 کراچی میں رہ کر سیاست کی ٹیسٹ اننگز کھیلوں گی ، پی ٹی آئی چیئرمین کا انجام 2018 میں ہی دیکھ لیا تھا: ریحام خان

 کراچی: سابق ٹی وی اینکر ریحام خان کاکہنا ہے کہ  پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں مورثیت ہے، پی ٹی آئی چیئرمین کا انجام 2018 میں ہی دیکھ لیا تھا۔

انہوں نے کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ  پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں مورثیت ہے، پی ٹی آئی چیئرمین کا انجام 2018 میں ہی دیکھ لیا تھا۔

ان کاکہناتھا کہ یہ میرا پہلا مسکن جبکہ کراچی معیشت کا حب ہے جہاں پورے پاکستان سے بے روزگار لوگ معاش کے لیے یہاں آتے ہیں۔ کراچی میں بائیس کروڑ سے زائد موٹرسائیکل والے ہیں جن کی وجہ سے شہر کا ٹریفک جام رہتا ہے، اس شہر میں عوام کی سہولت کے لیے بسیں نہیں ہیں۔

ریحام خان نے کہا کہ ابھی جب یہاں آرہی تھی تو سسر نے کہا کہ موبائل گھر پر رکھ کر جاؤ کیونکہ شہر میں پانچ ہزار روپے کے لیے لوگوں کی جان جارہی ہے، کراچی کا یہ مسئلہ نہیں کہ کون وزیراعظم آرہا ہے بلکہ یہاں لا اینڈ آرڈر اور بنیادی حقوق کی فراہمی بڑا مسئلہ ہے۔مجھے اب کراچی میں ہی رہنا ہے اور یہاں رہ کر سیاست کی ٹیسٹ اننگز کھیلوں گی تاہم ابھی کسی سیاسی جماعت میں جانے کا فیصلہ نہیں کیا۔

ریحام خان نے کہا کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں میں مورثیت ہے جبکہ ایم کیو ایم کا مجھے علم نہیں ہے، میں عہدے یا کرپشن کے لیے سیاست میں نہیں آؤں گی البتہ عوام کے لیے جو کرسکتی ہوں وہ کر کے دکھاؤں گی۔

 مجھے معلوم ہے کہ نکاح کیسے ہوتا ہے طلاق کیا ہوتی ہے، میرے ساتھ جو ہوا اللہ نہ کرے کسی کی بیٹی کے ساتھ ہو۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا انجام 2018 میں ہی نظر آگیا تھا، 9مئی کے واقعے کی جو سزا بنتی ہے وہ ملنی چاہیے، ایسے لوگوں کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے تاکہ دوبارہ ایسی خانہ جنگی نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ استحکام پارٹی جوائن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم آئی پی پی پنجاب میں آئندہ الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گی، میرا ڈومیسائل پنچاب کا نہیں ہے، علیم خان اور جہانگیر ترین اگر مجھے معاشی پشت پناہی کر رہے ہوتے تو میں اپنی سیاسی جماعت بنا چکی ہوتی۔علیم خان اور جہانگیر ترین نے جس کو معاشی سپورٹ دی آج پچھتا رہے ہوں گے۔

مصنف کے بارے میں