اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے نئے ٹربیونل کو کام سے روک دیا

 اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے نئے ٹربیونل کو کام سے روک دیا

اسلام آباد:  اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے نئے ٹربیونل کو کام سے روک دیا ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 24 جون تک کے لئے ملتوی کردی۔

لیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے  کی، کیس میں درخواست گزار  اور  الیکشن کمیشن کے وکلا پیش ہوئے۔ اپلیٹ ٹریبونل جج کی تبدیلی کے خلاف پی ٹی آئی کی متفرق درخواست پر بھی سماعت کی گئی۔ 

پی ٹی آئی وکیل فیصل چودھری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون موجود ہے کہ الیکشن کمیشن 7 دن سے زیادہ نوٹس نہیں کرسکتا، ایپلٹ ٹریبونل کو روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں سننا ہوتی ہیں۔


فیصل چودھری کے عدالتی فیصلے کے حوالے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا کہ بار بار آپ کو بتا رہا ہوں  معاونت کے نام پر خود کو بند گلی میں لےکر جارہے ہیں۔


 چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوموٹو پاور میں توہین عدالت کا نوٹس میرے پاس اختیار ہے وہ تو میں کرسکتا ہوں نا؟جنہوں نے یہ اقدام کیا  اس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی تو  شروع کرسکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے اظہارِ برہمی  کرتے ہوئے کہا میرے ججز پر جب بھی بات آئے میں برداشت نہیں کروں گا، درخواست میں جو لکھا ہے یہ لکھنے کے قابل ہیں ؟ ہائیکورٹ کے حاضر سروس جج نے کیا nepotism کیا ہے؟ 


دوران سماعت عدالت کی لیگی رہنما انجم عقیل کو آئندہ سماعت پر عدالت ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کےجج کےحوالےسےایسی زبان استعمال کرنےپرتوہین عدالت کانوٹس جاری کروں گا،اگر جج پر لگائے گئے الزامات غلط ہوئے تو وہ جیل جائے گا اور 5 سال کیلئے  نااہل بھی ہوگا، انہوں نے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن نے آرڈر بھی جاری کردیا۔


بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 24 جون تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے  الیکشن کمیشن کے نئے ٹریبونل کو کام سے روک دیا۔

ابتدائی سماعت

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن ٹربیونلز  کے جج تبدیل کرنے  پر  برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹریبونل میں ہائیکورٹ کا یک معزز حاضر سروس جج تھا،  کمیشن کو  معزز جج کی تبدیلی کے لئے عدالت کو گراؤنڈ بھی بتانے ہونگے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی ۔ ہائی کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کے جج کےتبادلے سے متعلق ریکارڈ  طلب کیا. 

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے استفسار  کیا کہ ٹریبونل میں جج کا تبادلہ کس قانون کے تحت کیا؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ مختلف گراؤنڈز موجود ہیں جس کے بنیاد پر بینچ کا تبادلہ کردیا گیا، ٹربیونل جج نے ٹرائل ٹھیک نہیں کی، ان پر جانبداری کا الزام تھا۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن پر برہمی  کرتے ہوئے کہا کہ میں نے گراؤنڈز پوچھے ہیں آپ جج پر تعصب کا الزام لگا رہے ہیں، خدا کا نام لیں، قانون کو قانون ہی رہنے دیں، یہ جو چیز آپ بنارہے ہیں اس نے کبھی نہیں رہنا، ٹرائل میں کوئی مسلہ تھا تو ہائی کورٹ کو آگاہ کرتے یا سپریم کورٹ چلے جاتے۔

 چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے مکالمہ  کرتے ہوئے کہا کہ ٹریبونل میں ہائیکورٹ کا یک معزز حاضر سروس جج تھا، اگر آپ نے باہر سے کرنا ہے تو پھر عدالت کو گراؤنڈ بھی بتانے ہونگے،گراؤنڈز فراہم نہ کرنے پر توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ 

 چیف جسٹس  نے استفسار کیا کہ قائم مقام صدر کس قانون کے تحت آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں؟ریکارڈ کس قانون کے تحت منگوایا، اس کا اپکو جواب دینا ہوگا، آئینی باڈی کی وجہ سے عزت و احترام کیا دو دن کا نوٹس کیا، مگر آپ کو راس نہ آیا، ٹریبونل سے متعلق نوٹیفکیشن کسی کے پاس نہیں تو میڈیا کے پاس کہاں سے آیا؟

 چیف جسٹس  نے ریمارکس دیے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو ٹریبونلز آپ نے بنائے ہیں ایک بہاولپور اور ایک راولپنڈی کے لیے،جن گراؤنڈز کے اوپر اپ نے تبدیلی کی ہے اس پر عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا۔اس طرح کی چیزوں سے آپ نیا پریسیڈنٹ بنانے جارہے ہیں۔

بعد ازاں ہائیکورٹ نے الیکشن ٹریبونل جج کی تبادلے سے متعلق ریکارڈ دو بجے تک طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت میں دو بجے تک وقفہ کردیا۔ 

مصنف کے بارے میں