ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی

 ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی
سورس: file

اسلام آباد :سابق وزیر اعظم  ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس پر صدارتی ریفرنس کی آج اہم سماعت جنوری تک ملتوی کر دی گئی۔ سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی جا رہی تھی۔ 

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی بینچ  ذوالفقار علی بھٹو کیس کی سماعت کررہا تھا ۔جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ ہیں۔  پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔ 

سابق صدر آصف علی  زرداری اور پیپلز پارٹی  کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ 

پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے براہ راست کارروائی نشر کرنے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا جب کہ اس دوران بلاول بھٹو زرداری نے کیس میں فریق بننے کی درخواست کردی، فاروق ایچ نائک کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کی نمائندگی میں کروں گا۔ 

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے۔ چیف جسٹس قاضی  فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں صدر صاحب ہم سے کیا چاہتے ہیں؟چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس فائل کیا ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آصف زرداری نے بطور صدر یہ ریفرنس بھجوایا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آصف زرداری کے بعد کتنے صدر آئے؟اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ آصف زرداری کے بعد 2 صدر آئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی صدر نے صدارتی ریفرنس واپس نہیں لیا تو یہ اب بھی عدالت کے اختیار میں ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بھی ریفرنس واپس لینے کی کوئی ہدایات نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریفرنس میں کیا سوالات اٹھائے گئے ہیں؟ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ریفرنس کے سوالات پڑھ کے سنانے کی ہدایات کر دیں جس پر اٹارنی جنرل نے سوالات پڑھ کے سنائے۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ریفرنس سماعت کے لیے منظور ہوچکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان پر دباؤ تھا، دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لاء والوں کی بات ماننی پڑتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ نسیم حسن شاہ نے یہ بتایا کہ کس نے ان پر دباؤ ڈالا تھا؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس وقت مارشل لاء تھا تو مارشل لا کی بات کی گئی۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے دوسرا انٹرویو کسی انجان کو دیا تھا، 2018ء میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں۔ جس پر وکیل فاروق ایچ نائک نے ریفرنس پڑھ کے سنایا۔ 

جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی کیس میں سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس سن چکی ہے اور نظر ثانی بھی خارج کر چکی ہے۔   ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے سن سکتے ہیں، سپریم کورٹ دوسری نظر ثانی نہیں سکتی ہے، عدالت کو بتائیں اس کیس میں کیا قانونی سوال ہے۔ فاروق ایچ نائک نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کا حامل کیس ہے۔ جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ عوامی اہمیت کا ہے تو صدر کو دیکھنا چاہیئے ہم قانونی اہمیت کے حامل کیس دیکھیں گے۔ فیصلہ برا بھی تھا تو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی تھا کیسے بدلا جا سکتا ہے۔ عدالت کس قانون کے تحت یہ کیس سنے؟

سپریم کورٹ نے اعلامیے کے مطابق سابق وزیر اعظم  ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس پر صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست نشر کی جارہی تھی۔ 

خیال ر ہے کہ  پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی براہ راست نشریات کیلئے درخواست دائر کر رکھی ہے، بلاول بھٹو کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

بلاول بھٹو نےذوالفقار علی بھٹو  صدارتی ریفرنس کی براہ راست نشریات  کیلئےدائر درخواست میں موقف اپنایا کہ میرے والد آصف زرداری کی جانب سے دائر کیا گیا، سماعت کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی جائے۔

 گزشتہ روز رہنما پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی نےبھی  ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔  ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہو چکی ہیں ۔صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت دو جنوری 2012 کو ہوئی تھی۔

 ذوالفقار بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی ۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں۔ آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی ۔ 

مصنف کے بارے میں