جاؤں کدھر کو میں ……!

جاؤں کدھر کو میں ……!

پاکستان امریکا دوستی کے ہاتھوں دائروں کے سفر میں ایک مرتبہ پھر وہاں آن کھڑا ہے جہاں سے وہ بمشکل تمام دہشت گردی کی جنگ کے خاتمے اور امریکی ہزیمت (اگست2021ء) کے بعد نکل پایا تھا۔ بیس سال ہم نے فرنٹ لائن اتحادی بن کر سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی! فرنٹ لائن ہونے کے ناطے ہم نے امریکی نیٹو سپاہ کے لیے ڈھال کا کام دیا۔ آخری دم تک ان کی تمام جنگی ضروریات نیٹو سپلائز کی صورت بے دام یا سستے داموں پاکستان کی شاہراہیں روندتی گزرتیں۔ اپنی لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔(نائن الیون کے 3 ہزار مرنے والے امریکیوں کے بدلے چکاتے۔) کولیشن سپورٹ فنڈ بے حساب طعنوں اور جتائے جاتے احسان کے ساتھ وصول کیا۔ تآنکہ امریکی انخلاء پر یہ چھچھوندر ہم نے اُگل دی۔
اب ایک مرتبہ پھر ہم اسی مقام پر خود کو کھڑا پا رہے ہیں‘ جہاں دھماکوں سے ملک ازسرنو لرز رہا ہے۔ سانحہئ پشاور میں مسجد زمین بوس ہونے میں بھاری جانی اتلاف اور اس پر ہمہ نوع قیاس آرائیاں مزید تشویش اور الجھاؤ کا سامان ہے۔ ڈرون حملے سے لے کر سازشوں کے تانے بانے تک۔ امریکا نے لپک کر لگے ہاتھوں دہشت گردی کا ازسرنو راگ الاپتے ہوئے نئے جوش وجذبے کے ساتھ طالبان حکومت سے متعلق نیا لائحہ عمل بنانے کے لیے پاکستان سے رابطوں میں گرم جوشی کا مظاہرہ فرمایا ہے۔ 31 اگست 2021ء انخلاء کے بعد کی ٹھنڈی باسی کڑہی میں یہ ابال محل نظر ہے۔ سینٹ کام کماندڑ نے انسداد دہشت گردی اور سرحدی سلامتی (وہی سرحدی سلامتی جسے امریکا نے خود 400 ڈرون حملوں سے روندا تھا۔) بارے ہمدردانہ گفتگو فرمائی۔ اظہار تعزیت کیا۔ اس موقع پر امریکی محکمہئ خارجہ کے مطابق پاکستان سے متعدد ’اہم امور‘ پر بات چیت جاری ہے۔ امریکی نمایندہ خصوصی پاکستان کے دورے پر آئے اور افغانستان میں مشترکہ مفادات نیز خواتین کے حقوق کی بحالی ممکن بنانے پر مشاورت ہوئی۔ پشاور دھماکے پر افغان خواتین کے حقوق کی مرثیہ خوانی بھلا کیوں؟
افغانستان ہمارا برادر ملک اور ہمسایہ ہے۔ ہمارے درمیان تاریخی، ایمانی، نسلی اشتراک ہے۔ جبکہ امریکا نے تاریخ کی سب سے بھاری جنگ وہاں لڑی اور ضمناً ہمیں بھی اُلجھایا۔ اب امریکا پاکستان مابین کون سے مشترکہ مفادات ہیں جن کی مشاورت ہم سے درکار ہے؟ عوام کو اگر اپنا اور پاکستان کا مستقبل عزیز ہے تو حکمرانوں سے امریکا پینگیں بڑھانے کی جو ازسرنو کوشش کر رہا ہے، اس کی بروقت خبر لینی ہوگی۔ سانحے کی تحقیقات میں بے لاگ ہوکر یہ دیکھنا لازم ہے کہ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ بھارت امریکا ہمارے دوست نہیں۔ یہ چکنی چپڑی ملاحظہ فرمائیے پھر ہم آپ کو گزشتہ 22 سالوں میں امریکی چہرہ دکھائیں گے، تاکہ پہچاننے میں غلطی نہ ہو۔ مومن ایک سوراخ سے باربار نہیں ڈسا جاسکتا! وائٹ ہاؤس نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان نے اپنے بیان میں کہا: ’پشاور سے افسوسناک اور ’دل دہلا دینے والی‘ خبر سامنے آئی ہے۔ نمازیوں پر حملہ ’ناقابل معافی‘ ہے۔ نمازیوں کو نشانہ بنانا ’غیرذمہ دارانہ‘ عمل ہے۔ امریکا پاکستان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘ یہ الفاظ نوٹ فرمائیے پھر ہم 22 سالوں میں امریکا کا پاکستان کے لیے ’درد بھرا دل‘ اور ’ذمہ دارانہ عمل‘ تازہ کریں گے! تاہم اس انتہائی اذیت دہ مرحلے میں افغانستان میں خواتین کے حقوق کی بحالی کا تذکرہ ناقابل فہم ہے۔ ہم اس جنگ میں امریکا کے ہاتھوں دھکیلے جانے ہی کے ’آفٹر شاک‘ بھگت رہے ہیں۔ اب ہمیں افغانستان کے گھروں میں گھس کر اندرونی معاملات (ان کی خواتین ان کا انتہائی نجی معاملہ ہے، پاکستان یا امریکا کو اس سے کیا مطلب؟) میں دخل اندازی کرکے یا ایسے واقعات کا الزام ان پر عائد کرکے نئی بلا اپنے سر لینی ہے کیا؟ امریکا اپنی عورت پر انہیں قیاس نہ کرے۔ 
ان کے گھر عورت کے وجود سے خالی ہوچکے۔ وہ بے چاری ہالی وڈ، فیشن ریمپ یا نوکریوں میں ہراسمنٹ کا شکار بنی پائی جاتی ہے، عزت سے ہر جا محروم کھلونا! یہ حکومت اشرف غنی کی ڈالر خور حکومت نہیں ہے۔ یہ فاتحین عالم افغانوں کی خانہ ساز حکومت ہے۔ ان کے وزیر خارجہ ہمیں متوجہ کرچکے ہیں کہ ہم مغربی سرحدوں پر الزام تراشی چھوڑکر اپنے اندرونی معاملات کی خبر لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’اگر دہشت گردی افغانستان سے ہوتی تو یہ چین، تاجکستان، ازبکستان، ایران، ترکمانستان میں بھی پھیلتی۔ افغانستان دہشت گردی کا مرکز نہیں ہے۔ مسئلہ پاکستان کا اپنا ہے۔ پاکستانی وزراء دوسروں پر الزام نہ دھریں اور باریک بینی سے پشاور حادثے کا جائزہ لیں۔ اپنے گھر کی تلاشی لیں، اپنی چھت کی برف دوسروں پر نہ ڈالیں۔‘ ادھر امریکا ہمیں سجھا رہا ہے۔ ’چڑھ جا بیٹا سولی، رام بھلی کرے گا۔‘ ہمیں ہوش کے ناخن لینے، دوست دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ مت بھولیے یہ وہی امریکا ہے اگست 2021ء میں انخلاء کے ساتھ ہی پاکستان پر جھلاہٹ اور تکبر سے غراتا اور اپنی شکست کا ضمناً ہمیں ذمہ دار ٹھہراتا یہاں سے نکلا تھا۔ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے گندگی سے لتھیڑ کر کوڑا دان میں پھینکنے والا یہ تھا۔ آخری دور میں ٹرمپ اور پاکستان مابین تلخی بھی ہوئی کہ ’امریکا نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے اور وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا رہا۔‘ 
حالانکہ پورا پاکستان گواہ ہے کہ ہزارہا مسلم دیندار باعمل نوجوانوں کو جرمِ بے گناہی میں امریکا کی خاطر لاپتگی کی عفریت کی بھینٹ چڑھایا۔ لال مسجد کو خون میں نہلایا، قبائلی علاقوں میں لکھوکھا آبادی آپریشنز کے ذریعے بے گھر بے در کی۔ آج انہی مشرفی پالیسیوں کا نتیجہ پاکستان کی سانسیں سلب کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ یہ امریکا عین وہی ہے جس نے امریکا کی خاطر اپنی جان پر کھیلنے والی پاکستانی فوج کی سلالہ میں دو چیک پوسٹوں پر حملہ کرکے 24 فوجی نشانہ بنائے ہیلی کاپٹروں سے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ان پر معذرت کرنے کا بھی امریکا روادار نہ تھا۔ آج مسجد کے نمازیوں کے لواحقین سے تعزیت کرنے والوں نے وہاں 24 خاندانوں سے معافی مانگنے یا تعزیت کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ سات ماہ تک جب پاکستان نے نیٹو سپلائی احتجاجاً بند کردی اور امریکی جنگی بجٹ کا توازن بگڑنے لگا تو انہیں ’سوری‘ کہنا پڑا۔ پھر مکھن لگاکر ازسرنو پاکستان کو بھاڑے کا ٹٹو بناکر نیٹو سپلائی میں (راہداری وصول کیے بغیر) جوت دیا گیا۔ دوسرے راستوں سے سپلائی مہنگی پڑرہی تھی۔ آج پشاور میں نمازیوں پر حملہ ’دل دہلا دینے والا، ناقابل معافی اور غیرذمہ دارانہ‘ قرار دینے والا وائٹ ہاؤس ترجمان 30 اکتوبر 2006ء میں باجوڑ مدرسے پر ڈرون حملے میں میزائلوں کی برسات کی خبر بھی یاد فرما لے۔ ’دی ایکسپریس ٹربیون‘ کی رپورٹ کے مطابق: اس حملے میں 80 مرنے والوں میں 69 بچے تھے۔ سب سے کم عمر بچہ 7 سال کا تھا۔ بڑی تعداد 8 سال تا 14 سال عمر کے بچوں کی تھی۔ صرف دو 21 سال کے تھے۔
پاکستان نے یو این کو رپورٹ دیتے ہوئے (رائٹر: اکتوبر 2013ء) بتایا تھا کہ دس سالوں میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے والے 2200 افراد میں سے 400 عام شہری تھے۔ شدید زخمی 600 ہوئے۔ مزید 200 وہ تھے جو غیرلڑاکا غیرمحارب تھے۔ یہ سب قابل معافی، ذمہ دارانہ اور امریکی دلوں کے اطمینان کا موجب تھا……؟ ڈالر خور طبقات کے لیے یہ خونچکاں 20 سالہ جنگ بھلانا ممکن ہے، مگر پاکستان کی تاریخ جغرافیے سے محبت رکھنے والے، اسے اپنے خون سے زمین سینچنے والوں کے دل پر یہ سب لکھ رکھا ہے۔ بالخصوص یہ المیہ کہ ان دو ڈھائی دہائیوں میں یوں لگنے لگا گویا پاکستان کا مقصد وجود ہی دل وجان سے امریکا کا دہاڑی دار مزدور بن کر اس کی خدمت کرنا تھا۔ سائیبر سپیس میں اگست 2021ء کے بعد امریکا پاکستان تعلقات کا باب ذرا تازہ فرما لیجیے، تو آج پشاور میں ’ماں سے بڑھ کے چاہے تو پھپھا کٹنی کہلائے‘ والے امریکا کو پہچان جائیں گے۔ ان کا ہمیں یہ کہہ کر دانہ ڈالنا کہ تعمیر نو اور بحالی میں پاکستان کو مدد دیں گے، ہماری کمزوریوں سے کھیلنے والا لالی پاپ ہے۔ عالمی چودھری ایک طرف ہمیں آئی ایم ایف وفد بھیجے پاکستان کو مذاکرات میں دھمکاتے بازو مروڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکا ہمیں اپنی مقصد براری کے لیے پچکار رہا ہے۔
اے کاش جانتا نہ تری راہ گزر کو میں! اب پھر یہ کمبل ہمیں چمٹنے کو ہے۔ مشتری ہوشیار باش۔ یاد رہے کہ پاکستان سے ساری قربانیاں وصول کرکے، اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچاکر بھی ہمارے بدترین دشمن بھارت کو اس نے، اپنی محبت، دوستی اور مہربانیوں کا مرکز ومحور بنائے رکھا۔ ہم نے اپنے مہربان، برادر ملک (پہلے طالبان دور نے پاکستان کو جو تزویراتی گہرائی اور وسعت دی تھی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔) افغانستان کی پیٹھ میں امریکا کی خاطر خنجر گھونپا مگر۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ کشمیر سے منہ موڑکر ہم نے اپنی شہ رگ اور مسلم آبادی کو خونخوار مودی کے لیے لقمہئ تر بنا دیا۔ اسلامیانِ افغانستان پر قیامت توڑنے میں حصہ دار بنے۔ اللہ کا قہر پے درپے زلزلے، سیلابوں کی صورت ہم پر ٹوٹا۔ اب تو وزیر خزانہ بھی چیخ اُٹھے: آئی ایم ایف وفد کے تیور دیکھ کر ’اللہ رسول سے جنگ نہیں لڑ سکتے، سود کے خاتمے پر کام تیز کریں گے۔ ہمیں توبہ کرنی ہوگی۔‘ جناب عالی! اسی جنگ کی دوسری جہت امریکا کی فدویت بھی ہے،اس سے بھی تائب ہونا پڑے گا۔ قرآنی وعیدیں اس پر کچھ کم نہیں! حال ہمارا وہی ہے کہ جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا! اب یاد آیا ہے تو امریکی ڈالر دیکھ کر بھول نہ جائیے گا! پاکستان بہ زبان حال کہہ رہا ہے   ؎
ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں 
حیراں ہوں دل کو پیٹوں کہ روؤں جگر کو میں