"ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا"،انقلابی شاعر حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے 31 برس بیت گئے

لاہور:انقلابی شاعر حبیب جالب کو مداحوں سے بچھڑے 31 برس بیت گئے۔24 مارچ 1928 کو بھارت کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا، تقسیم ہند کے بعد خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔

انقلابی شاعر حبیب جالب نے جو لکھا امر ہوگیا، انقلاب کا نعرہ ہی نہیں لگایا بلکہ اپنی زندگی کو انقلاب کی عملی تفسیر بنا دیا۔حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدعام ہوگیا۔ان کے فلمی گیت بھی بڑے مقبول ہوئے، فلم ’زرقا‘ کے گیت نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔


انقلابی شاعر حبیب جالب کی نظموں کے پانچ مجموعے ’’برگ آوارہ‘‘، ’’سرمقتل‘‘ ’’عہد ستم‘‘، ’’ذکر بہتے خون کا‘‘ اور ’’گوشے میں قفس‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔


12مارچ 1993کو حبيب جالب اس دنیا سے رخصت ہوگئے، حکومت نے ان کی وفات کے 16 برس بعد انہیں نشان امتياز سے نوازا۔

مصنف کے بارے میں