اتنی دھمکیاں اور چیخ و پکار کس لیے…

اتنی دھمکیاں اور چیخ و پکار کس لیے…

پاکستان کے آئین کے تحت قومی اسمبلی میں قائد ایوان یعنی وزیراعظم اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے خلاف ارکان قومی اسمبلی کسی وقت بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سینیٹ کے ارکان کو چیئرمین سینیٹ و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو اپنے اپنے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور سپیکرز و ڈپٹی سپیکرز کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا حق حاصل ہے ۔ یہ حق کب اور کیسے استعمال کرنا ہے، اسکا انحصار ایوان میں حزب مخالف کی جماعتوںاورانکے پارلیمانی قائدین کی صوابدید پر ہے۔ اب قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے تو اپنے اسی حق کو استعمال کیا ہے۔ ویسے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی کب سے خیال آرائی کی جارہی تھی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین جناب آصف علی زرداری اور بلاو ل بھٹو زرداری عرصہ ہوا وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے پر زور دے رہے تھے لیکن پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام اور انکے قائدین میاں محمد نواز شریف ، میاں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان وغیرہ اسکے حق میں نہیں تھے۔ وہ اس کے بجائے قومی اسمبلی کے ایوان سے اپنے ارکان کے استعفے دینے اور پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد تک احتجاجی مارچ کرنے اور یہاں دھرنا دینے کے آپشنز استعمال کرنے کے حق میں تھے۔ چند ہفتے قبل پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پیپلز پارٹی میں ڈرامائی طور پر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق رائے سامنے آیا تو پھر پچھلے ہفتے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فض الرحمان نے یہ اعلان کردیا کہ اگلے 48 گھنٹوں میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی جائے گی۔ 
مولانا فضل الرحمان کے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے اس اعلان کے بعد 48 گھنٹے ہی نہ گزرے بلکہ اس سے دوگنے ، تگنے گھنٹے گزرنے لگے تو میڈیا پرسنز سمیت عام لوگوں کو جہاں اس بارے میں چہ میگوئیاں کرنے اور پھبتیاں کسنے کے مواقع مل گئے وہاں وزیراعظم عمران خان کوبھی حزب مخالف کے راہنمائوں کے خلاف آہ و بکاکرنے اور انہیں دھمکیاں دینے کے سنہری مواقع بھی حاصل ہوئے۔ حزب مخالف کے قائدین کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کیلئے شاید کسی "شبھ گھڑی" کا انتظار یا کسی اور خاص بات کا انتظار تھا کہ پچھلے ہفتے کے دوسرے دن یعنی منگل 8 مارچ کو متحدہ حزب مخالف نے 86 ارکان قومی اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ اوراس عزم کو دوہراتے ہوئے کہ تحریک عدم اعتمادکے حق میں 172 سے زائد ووٹ پڑیں گے اور یہ کامیابی سے ہمکنار ہوگی ، اسے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا ۔ 
دیکھا جائے تو حزب مخالف کے قائدین کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا آپشن استعمال کرنے کے اعلان سے لے کر اس کے جمع کرانے، اس کی کامیابی کیلئے قومی اسمبلی میں حکومت کی اتحادی جماعتوں کے راہنمائوں اور حکومتی جماعت کے باغی ارکان کے گروپوں سے رابطوں اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن جمع کرانے تک کوئی بھی اقدام ایسا نہیں ہے جسے غیر آئینی اور غیر جمہوری قراردیا جاسکے۔ اس کے باوجود پتا نہیں حکمران جماعت کے اہم راہنما بالخصوص وزیراعظم جناب عمران خان حزب مخالف کے راہنمائوں کے یہ حق استعمال کرنے پر سخت سیخ پاہیں اور انہیں آئے رو ز دھمکیاں ہی نہیں دے رہے ہیں بلکہ انکے خلاف جو کچھ گالم گلوچ منہ میں آ رہا ہے بولے چلے جارہے ہیں۔ وزیراعظم جنا ب عمران خان اور انکے ساتھیوں کا یہ 
انداز فکر وعمل اور یہ رویہ کوئی ایسا غیر متوقع نہیںہے۔ وہ کب سے اس رویے اور انداز فکر وعمل کو اپنائے ہوئے ہیں۔ تاہم 2018 میں جناب عمران خان نے وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تو عام خیال یہی تھا کہ وہ اپنے اس غیر ذمہ دارانہ اور غیر مہذب رویے میں تبدیلی لے کر آئیں گے۔ ملک وقوم کی بد قسمتی کہ ایسا نہ ہوسکا اور انکا وہی لب ولہجہ اور دھمکیوں اور دُشنام طرازی کی تکرار کا سلسلہ اب بھی جاری ہی نہیں ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے ۔ جناب عمران خان اور ان کے حکومتی ساتھیوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو ناکامی سے دوچار کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کریں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ اقدامات آئین وقانون کی حدود کے اندر اور جمہوری روایات اور اقدار کے مطابق ہوں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وزیر اعظم اور انکے ساتھی ایسا نہیں کر رہے بلکہ وہ مخالفین کو دھمکیاں دینے اور دشنام طرازی کرنے میں آخری حدوں تک پہنچ چکے ہیں۔ پچھلے اتوار کو وزیر اعظم عمران خان نے میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران حزب مخالف کے قائدین کیلئے جو زبان اور لب ولہجہ استعمال اختیار کیا وہ کچھ کم سخت اور کم غیر مہذب نہیں تھالیکن بدھ کو کراچی کے اپنے دورے کے دوران اور جمعہ کو لوئر دیر میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران حزب مخالف کے قائدین کے بارے میںانہوں نے جو کچھ ارشاد فرمایا اور جس لب ولہجے میں چیخ وپکار کی ، دھمکیاں دیں اور جو نازیباالفاظ استعمال کیے ان سب کو سن کر اور دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ کیا ملک کا چیف ایگزیکٹو اور سربراہ حکومت اپنے مخالفین کیلئے اسطرح کی زبان اور گالم گلوچ کا انداز اختیار کرسکتا ہے اور انہیں ہر طرح کی دھمکیاں دے سکتاہے۔ جناب وزیر اعظم کے ارشادات گرامی کچھ اسطرح تھے۔"آصف علی زرداری میرا پہلا ٹارگٹ ہوگا، میری بندوق کی نشست پر بڑی دیر سے آیا ہوا ہے ، آصف زرداری تمہار اوقت آگیا ہے"، " دوسرا ٹارگٹ مقصود چپڑاسی والا و شوباز(شہباز شریف ) جوتے پالش کرنے والا "، " فضلو تم سن لو، اسکو مولانا کہنا گناہ ہے ، فضلو تو ڈیزل ، مسڑڈیزل ، تم بھی تیار ہوجائو"۔
جنا ب وزیر اعظم کب سے اپنے مخالفین کو ڈاکووں ، چور وں اور لیٹروں کا ٹولا قرار دے رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جناب وزیر اعظم اور انکی حکومت بقول انکے ان چوروں اور لٹیروں کو ابتک اپنے انجام تک کیوں نہیں پہنچاسکے۔ ان کو برسراقتدار آئے تقریباً پونے چار سال کا عرصہ ہوچکا ہے انکے بقول مقتدر ادارے انکے ساتھ ایک پیج پر ہیں ، نیب انکے ہاتھ کی چھڑی اور ایف آئی اے اور آئی بی جیسے ادارے انکی جیب کی گھڑی ہیں تو پھر آج تک وزیر اعظم جنہیں چور وڈاکو قرار دے کر قومی خزانے کی لوٹ مار کا ذمہ دار سمجھتے ہیں انہیں کوئی سزا کیوں نہیں دلا سکے۔ صرف دھمکیاں دینا اور دُشنام طرازی کرنا کافی نہیں ۔وزیر اعظم کو جان لینا چاہیے کہ انکا یہ غیر مہذب انداز تکلم اور مخالفین کو دھمکیاں دینا ملک وقوم کیلئے کسی صورت میں بھی اچھی علامت نہیں ہے۔ انہیں پتا ہونا چاہیے کہ ان کے مخالفین جن کو عوام کی اکثریب کی حمایت حاصل ہے وہ بھی منہ میں زبان رکھتے ہیںاور وزیر اعظم کو ترکی بہ ترکی جواب ہی نہیں دے سکتے ہیں بلکہ ایسے الفاظ بھی استعمال کرسکتے ہیں کہ وزیر اعظم میں آئندہ بولنے کی سکت ہی نہ رہے ۔ جمعہ کو پریس کانفرنس میں میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمان نے اسکا کچھ مظاہر ہ کیا ہے۔

مصنف کے بارے میں