جلسے بھرنے والے عوام

جلسے بھرنے والے عوام

لکھنے کی ترغیب بارہا ہوئی اور حالات بھی دعوت دیتے رہے دل اور ملک دل کے حالات معمول کے نشیب وفراز سے الجھتے رہے جو لوگوں کو زلزلہ نظرآتا ہے ہم عادی مجرموں کے لیے معمولی سی ”حرکت“ ہے ....اب تو چھت گرے یا دیوار ٹوٹے محسوس ہی نہیں ہوتا کون ٹرک پر چڑھ گیا کون ٹرک سے اترگیا گولیاں تین لگی کہ چار کیا فرق پڑتا ہے یہاں تو نعرہ زنی کا لطف اٹھائے بغیر گھر کے کونوں کھدروں میں چھپ کر بھی زہر آلود نشتر پیوست ہوجاتے ہیں.... سیدھے دل میں ....
لوگوں نے ہربات کی طرح یہ بھی غلط مشہورکررکھا ہے کہ مشرق بہت محبت کرنے والا خطہ ہے حالانکہ یہاں والدین اولادوں اور اولادیں والدین سے مفاد کے رشتے رکھتے ہیں ”یوٹوپیا“ میں رہنے والوں کو سچ سے بہت ”پرابلم “ ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ ہم ہی لوگ ان رشتوں پر شعروشاعری اور افسانہ سازی کرتے ہیں، اور جیسے ہی کسی چینل پر کسی بہنوئی کو اپنی سالی سے عشق لڑاتے دیکھ کر ”رولا“ ڈال دیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ خراب دکھارہے ہیں ہمسایہ ملک کو پتہ چل جائے گا حالانکہ ہم بچپن سے یہ سب کچھ نہ صرف خبروں میں بلکہ گلی محلوں میں دیکھتے آئے ہیں فرق ہے تو صرف اتنا کہ تب بزرگوں نے شادی شدہ بیٹیوں کے ہاں اپنی کنواری بیٹیوں کو بھیجنے کی ممانعت کررکھی تھی....
معاشرے تہذیبوں کے زیراثر اپنی حقیقی جبلی احتیاجات سے ذرا سے دورچلے بھی جائیں تو موقع ملتے ہی عریاں ہوجاتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو تہذیب کا لبادہ اوڑھے کچھ صدیاں گزریں مگر اس کا اصل اس کے ساتھ ہے چوری ڈاکہ چھینا جھپٹی ریپ (وہ بھی کسی کو چھیتے جیساہے) اس کے جبلی تقاضے ہیں یہ سب اچھی تربیت اور اساتذہ مشاہیر کو عالم کے وعظ نے کنٹرول کررکھا تھااب اساتذہ مخصوص وقت پڑھا کر یا رٹے ہوئے نوٹس رٹا کر ادبی محفلوں مشاعروں میں چلے جاتے ہیں عالم بیس ہزار کر کرتا پہن کر رخسار وزلف کو چمک سے روشن کرکے مہنگے داموں ”بیان“ دیتے ہیں انکے غریبی میں عزت کے درس بے کارہو جاتے ہیں جب وہ لینڈ کروزرسے اترتے ہیں من فقیر لکھتے ہیں اور ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی سے پائے مبارک زمین پر اتارتے ہیں تضاد انسانی فطرت سے سب سے زیادہ ٹکرانے والا ہتھیار ہے یقین کیجئے اسی تضاد نے مجھے کبھی کسی کوووٹ دینے پر آمادہ نہیں کیا جب دوسرا پہلے سے بھی زیادہ نالائق حکمران آتا ہے تو دل شکستگی بہت بڑھ جاتی ہے۔ لوگ لازم سمجھتے ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کا نہیں لہٰذا مسلم لیگ ن کا ہے حالانکہ کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اپنا بھی نہ ہوسکا ہو....
کچھ لوگ ”بڑے ، بھی ہوتے ہیں، مجھے منصور آفاق کا مصرعہ بہت اچھا لگتا ہے ”میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہوتی تھی “ اس شعر میں مشکل اپنی قدوقامت میں چھوٹی ہوجاتی ہے کہ سہنے والا بڑا ہوجاتاہے۔
دنیا کے بازار میں اپنی قیمت ہم خود ہی لگاتے ہیں جس کا دامن تھامنے سے اپنی قیمت اوپر چلی جاتی ہے اور اشیاءکی نیچے۔ ....اُتاولاپن خواہشات کی بارش اور جلد بازی تذلیل کرواتی ہے۔ آرزواپنی تکمیل کا انتظار کرتی ہے سہارے نہیں تلاش کرتی اہل دانش کو بھی یہ قرینے یہ سلیقے مدت بعد آشکار ہوتے ہیں ۔
بہرطور بنیادی طورپر تو یہ دنیا درمیانی ذہانت والوں کے لیے بنی ہے کیونکہ درمیانے درجے کا ذہین آدمی بہت بولتا ہے اس کی سوچ سے بھی تیز رفتار اس کی زبان ہوتی ہے۔ وہ خود کو بہت سمجھدار چلتر اور چالاک سمجھتا ہے معاملات زندگی اور دن بھر کی سودے بازی ثابت کرتی ہے کہ وہ ایک سیلز مین سے زیادہ اپروچ نہیں رکھتا.... کہیں بھولے بھٹکے اقبال قائد اعظم ، نہرو، گاندھی پٹیل خطے میں آگئے تھے پھر اس کے بعد یہ زینہ پاتال میں اترنا شروع ہوگیا مجھ سے جب اکثر ”ووٹر“اور پرستار سیاست پوچھتے ہیں کہ میں کس پارٹی سے ہوں تو مجھے ہنسی یہ سوچ کر آتی ہے کہ کیا واقعی کوئی فرق ہے ان پارٹی ”لیڈران“میں (لفظ لیڈرکی توہین پر معذرت) مجھے کوئی ایک بیان دکھادے کسی ایک سوکالڈ So Calledلیڈر کا جو گزشتہ چالیس پچاس برس سے مسلسل نہ دہرایا جارہا ہوتو میں مان لوں گی کہ یہ سیاست دان ہے ،میں نے پوری زندگی میں جو سیاسی بندوں کے بیان سنے ہیں وہ صرف دوجملوں کے معنی پر منتج ہوتے ہیں ،جب حکومت میں آجائیں تو ”خزانہ خالی ہے قرضے وراثت میں ملے ،مسائل جادو کی چھڑی سے حل نہیں ہوسکتے اور جب یہ ہی اصحاب اپوزیشن میں اپنی کرسی کے لیے جدوجہد کررہے ہوں تو یہ کہ ملک کو نقصان پہنچایا کھا گئے پی گئے چورلٹیرے مہنگائی کردی اندرون شہروالی لڑائیاں....
اب تو چہرے اتنے ”مکس“ ہوگئے ہیں کہ صورت پہچانی نہیں جاتی ”بہت دیکھی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی“کئی مرتبہ ٹی وی پر چہرے شریف دیکھ کر اطراف میں پوچھتی ہوں یہ آج کل کس پارٹی میں ہیں۔
کئی ”کلیوں“ منطق اور طے شدہ مہذب اسباق کا مذاق اڑچکا ہے مثلاً ہم بچپن سے سنتے تھے کہ میاں بیوی کے اختلاف کی بات بیڈروم سے باہر نہیں آنی چاہیے مگر جاہل میاں بیوی بآواز چوکوں چوراہوں گلیوں محلوں میں ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے تھے جیسے اب سیاست دان کرتے ہیں۔ سنتے تھے سمجھ دار لوگ معاملہ فہمی کرتے ہیں گفتگو سے مسائل کا حل کرتے ہیں۔ یہ بھی سنتے تھے تھانہ کچہری سے پہلے صلح صفائی ہونی چاہیے مگر ہردور میں جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں نئے نئے محکمہ تراشے جاتے ہیں مقدمے ڈالے اور خارج کئے جاتے ہیں صرف سزاﺅں کے طریقے سوچے جاتے ہیں ایسے میں ایسا نہیں کہ عوام کا کوئی رول نہیں ان کے بارے میں نہیں سوچا جاتا یقیناً یہ سیاست دان سوچتے ہیں کہ جلسوں کے لیے عوام کے ”سروں“ کی کتنی گنتی درکار ہے تالیاں بجانے کے لیے کتنے ہاتھ چاہیں گلہ پھاڑ کر نعرے لگانے کے لیے کتنے عوامی چہرے چاہیں بریانی اور قیمے والے نان بیٹوں کی درجہ چہارم میں نوکری اور کچہری میں کرسی کے لیے۔

مصنف کے بارے میں