توشہ خانہ کے تحائف ریاست پاکستان کی ملکیت ہوتے ہیں، یہ کوئی سیل لگی ہوئی ہےکہ  پچاس فیصد یا بیس فیصد آف ہے: جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب

 توشہ خانہ کے تحائف ریاست پاکستان کی ملکیت ہوتے ہیں، یہ کوئی سیل لگی ہوئی ہےکہ  پچاس فیصد یا بیس فیصد آف ہے: جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب

اسلام آباد:  توشہ خانہ اور ایک سو نوے ملین پاؤنڈ نیب ریفرنسز میں عمران خان کی درخواستوں پر سماعت کےدوران جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے توشہ خانہ کے تحائف ریاست پاکستان کی ملکیت ہوتے ہیں۔توشہ خانہ حکومت کی تجوری ہے اور سیکرٹری کابینہ اس کا رکھوالا ہےجس نے سب کے لئے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہے ۔یہ کوئی سیل لگی ہوئی ہےکہ  پچاس فیصد یا بیس فیصد آف ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے  190 ملین پاؤنڈ کیس اور توشہ خانہ نیب کیس میں بانی پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر نیب اور سیکرٹری داخلہ کو پیر کے لئے نوٹس جاری کر دئیے۔ عدالت  نے  پیر کو کیس دستیاب بنچ کے سامنے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ریفرنسز میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔  بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکلاء لطیف کھوسہ، شعیب شاہین ، انتظار پنجوتا عدالت  میں پیش ہوئے۔ 

 لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ وفاقی حکومت نے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ریفرنس دائر ہونے سے ایک ماہ پہلے ہی جاری کر دیا تھا ۔ قانون کے مطابق متعلقہ عدالت کے جج نے جیل ٹرائل کا پراسیس شروع نہیں کیا۔ 23دسمبر سےتوشہ خانہ ریفرنس میں سنٹرل جیل اڈیالہ میں روزانہ کی بنیاد پر جیل ٹرائل چل رہا ہے۔ کورٹ رولز تھری میں واضح ہے کہ ٹرائل یا انکوائری اوپن کورٹ یا اوپن پبلک میں ہوگی،

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ  21 نومبر 2023 کا نوٹیفکیشن ہے تو آپ اتنے دیر سے کیوں آئے؟ آپ کو اس نوٹیفکیشن سے متعلق کب پتہ چلا ؟  جس پر  لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جب ریفرنس دائر ہوا اور مجھے نوٹس ہوا تب پتہ چلا۔

عدالت نے کہا ہم نے اس کا پراسیس ہی دیکھنا ہے کہ وہ  ٹھیک ہوا ہے یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھنا کہ ٹرائل ادھر کریں یا جیل میں۔

جس پر لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ وفاقی حکومت کو کیسے پتہ تھا کہ ریفرنس دائر ہو گا  کہ جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن پہلے ہی کر دیا ؟ کیا وفاقی حکومت کو پہلے سے ہی اتنا یقین تھا کہ ریفرنس دائر ہوگا ؟ اس عمل سے بدنیتی واضح ہوتی ہے، ریفرنس ڈراپ بھی تو ہوسکتا تھا ۔ جب جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن ہوا تب تو کورٹ کو ڈیزیگنیٹ ہی نہیں کیا گیا تھا ۔ جج صاحب کو ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا گیا ،ریٹائرمنٹ کی مدت بھی قریب ہے، وہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کررہے ہیں تاکہ ٹرائل مکمل کرسکیں ۔ گیارہ گواہوں کے بیانات قلمبند کر کے تین گواہوں پر  جرح بھی ہو چکی  ہے، باقی تمام کیسز کا ٹرائل آگے نہیں بڑھ رہا ۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ آپ کی حکومت نے احتساب عدالت کے ججز کی منظوری ہی نہیں دی تھی، جیسے قابل لوگوں کی سفارش کرکے بھیجتے تھے تو وزارت قانون اس پر بیٹھ جاتی تھی۔ 

عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

مصنف کے بارے میں