حماس، اسرائیل جنگ

حماس، اسرائیل جنگ


اگر آپ ایک مختصر سی نظر عالمی منظر نامہ پر ڈالیں تو یہ محسوس ہو گا کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت گٹھ جوڑ مستقبل کے کسی خاص منظر نامہ کی طرف عالمی سوچ کو گھسیٹ رہا ہے۔ دنیا کے نہ حل ہونے والے تین بڑے مسائل یا تنازعات میں سے دو کا تعلق بھارت (کشمیر، لداخ) اور ایک کا تعلق اسرائیل سے (فلسطین) ہے اور باقی رہا امریکہ تو وہ صنعتکاروں کا عالمی غنڈہ ہے۔ جس کی وہ قیمت وصول کرتا ہے۔ اگر آپ اس وقت دنیا کی ضرورت کو سمجھتے ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اب روایتی جنگ اور ہتھیاروں میں نہ تو اس حد تک منافع ہے اور نہ دنیا کے جدید ممالک اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت رکھنے والے ممالک کے پاس اتنا فالتو وقت کے وہ کتوں، ریچھوں اور سوروں کی لڑائی دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کریں۔ روس اور یوکرائن کی جنگ نے ثابت کر دیا کہ روایتی جنگ سے زیادہ اہم غیر روایتی یعنی معاشی محاذوں پر فتح و شکست ہے۔ جو یورپ نے بھگتا، اور آنے والی سردیوں سے قبل وہ اپنے معاملات کو بہتری کی طرف لے جائے گا۔ اب روایتی خطہ ارض کی حفاظت کی خاطر جنگ بے معنی ہو چکی ہے۔ اب ملٹی نیشنل کمپنیاں جنگ لڑ رہی ہیں۔ جن کی حکومتیں یا اقتدار براعظموں تک پھیلا ہوا ہے۔ اور اس جنگ کا ہتھیار اور اوزار دنیا میں موجود 8 ارب لوگ ہیں جنہیں کسٹمر یا صارف کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اس حالت میں 2050 تک کے عالمی منظر نامہ میں دنیا کے ڈیڑھ صدی قدیم زمینی تنازعات کو حل کر کے منافع بخش مارکیٹ اور پرسکون گاہک تک رسائی اہم دفاعی ہدف ہے۔ اسی لیے دنیا کی تیزی سے پھیلتی معیشت بھارت اور چین نے کچھ مک مکا کر لئے ہیں جن میں شاید لداخ کا تنازع کا حل کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہو چکا ہے۔ اور چین کی مٹھی گرم ہونے کے بعد چین کے کاروباری دروازے کا سکیورٹی گارڈ پاکستان کشمیر کے معاملے میں آہستہ آہستہ خاموش ہو جائے گا یا کر دیا جائے گا۔ اسی طرح ایران سے عرب دوستی، اور اسرائیل سے تمام عرب ممالک کا ہاتھ ملانا۔ سفارتی افعال کی بحالی اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ عربوں نے فلسطین بیچ دیا۔ عجمی مسلمان ایک جذباتی قوم ہے۔ اور عرب 4 ہزار سال سے تاجر اور دنیا کی تجارت میں اثر و رسوخ رکھنے والی اقوام ہیں۔ لہٰذا عجمی ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کے بعد موٹر سائیکل بیچ کر ایک گھوڑا اور تلوار خرید رہے ہیں، جبکہ عرب اپنے کاروباری پارٹنرز کو نئے تجارتی ایونیو (مواقع) کھول کر دے رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عالمی میڈیا پر اسرائیل کا سب سے بڑا قبضہ و اثر رسوخ ہے۔ لیکن اس وقت شدت سے تمام میڈیا فلسطین اور حماس کی بہادری کی داستانیں اسرائیلی فوجیوں کی لوٹ مار اور انہیں قید کرنے انکے ٹینک جلانے ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے، ان کی عورتوں اور بچوں کی آہ و بقا دکھا رہا ہے۔ جبکہ ہولوکاسٹ پر بات کرنا بھی ممکن نہیں۔ یہ وہ جواز ہے جو بکاؤ عربوں نے جان بوجھ کر اسرائیل کو سستے داموں فراہم کیا ہے۔ تاکہ بس اسے بہانہ بنا کر فلسطین کے مسئلے کو یکبارگی ختم کر دیا جائے۔ جس طرح اسرائیلی اور امریکہ کے بھارت گٹھ جوڑ میں پلوامہ ڈرامہ، ممبئی حملے اور دیگر کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف ایک سوچی سمجھی میڈیا اور سیاسی جنگ لڑی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح یہ اسرائیل اور فلسطین میں جو ہو رہا ہے۔ وہ ٹام اینڈ جیری شو ہے جس میں ٹام (بلی) نے خون آلود چھری سے چوہے کاٹنے کے بعد مالک کو دکھانے کو وہ خون آلودہ چھری جیری (چوہے) کے ہاتھ میں دے دی۔ اور خود اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔ اب عالمی حوالدار  نے دیکھا اور اس کے کیمرہ نے دکھایا کہ چوہے نے سب قتل و غارت گری کی ہے۔ اب چوہے کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ برائے مہربانی اس سب کچھ کو جہاد مت سمجھیں۔ ان کے مسائل کو پوسٹوں میں شیئر مت کریں۔ سروں پر کفن باندھ کر مت نکلیں۔ کیونکہ مجھ سے اور آپ سے زیادہ اسلام اسرائیل اور فلسطین کے اردگرد رہنے والے مسلم ہمسایوں کو آتا ہے۔ وہ سب صرف اپنے چولے اٹھا کر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ بالکل اس بندر کی طرح جسے بادشاہ بنا دیا گیا تھا اور لچے شیر نے لومڑی کا بیٹا کھا لیا۔ جب لومڑی فریاد لے کر بادشاہ سلامت کے سامنے گئی۔ تو بندر بادشاہ نے ادھر ادھر درختوں پر دوڑنا اور چھلانگیں لگانا شروع کر دیا۔ لومڑی کچھ دیر دیکھتی رہی پھر پوچھا بادشاہ سلامت آپ کیا کر رہے ہیں۔ تو بندر بادشاہ بولا تیرے مسئلے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں۔ اگر آپ نے بدنام زمانہ یوال نوح ہرارے (مشہور زمانہ اسرائیلی مصنف) کی کتاب ”سپین“ یا ”اکیسویں صدی کے اکیس اصول“ پڑھی ہو تو یہ بات آپ کو بہت آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا نقطہ نظر سرد جنگ سے معاشی جنگ اور معاشی دہشت گردی کی طرف مڑ چکا ہے۔ اور عالمی تاجر جب پیسے کما رہے ہوں تو انہیں معاملات اس قدر پرسکون چاہئے ہوتے ہیں کہ جوتے میں بھی کنکر نہ چبھے۔ کجا وہ چند بدمعاش، دہشت گرد جہادی خطے جو انہوں نے کسی زمانے میں اسلحے کے کاروبار کے لئے خود بنائے تھے۔ اب انہیں مسمار کر کے آرٹیفشل انٹیلی جنس کے کاروبار ائیرکنڈیشنڈ ماحول میں کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ یوال کہتا ہے۔ آگے آنے والے دنوں میں مذہب معیشت اور خدا پیسہ ہوگا۔ ایک مسلمان، عیسائی، ہند و یہودی اپنے اپنے علاقوں میں مذہب کے نام پر اپنی اشیاء بیچ کر شام کو لاس ویگاس کے کسینو میں جوا کھیلتے ہوئے۔ شراب کی چسکی سے ایک ساتھ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ کیونکہ وہ تمام لوگ شیئر ہولڈر ہوں گے اس شہد کے جو مسلم ممالک میں اسلامی شہد، ہندو ممالک میں رام کی شہد اور عیسائی ممالک میں بیت اللحم کے درختوں سے چنی گئی مبارک شہد ہو گی۔ اسرائیل اور امریکہ کے زیر تسلط میڈیا جنگ کا ہتھیار نہ بنیں۔ وہ لوگ جو خالص ہو کر اللہ کی رضا اور نبی کریمؐ کے دین کی خاطر اس اسرائیل فلسطین تنازع میں خون نچھاور کر رہے ہیں، ان کے گھر بار اور عزت آبرو کے لئے بحیثیت مسلمان دعا گو رہیں۔ کیونکہ عنقریب آپ وہ دیکھیں گے، جس پر آپ کا دل خون کے آنسو روئے گا۔ اللہ کریم مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ اور عالمی سازش میں شامل منافق مسلمان عہدے داروں کو نیست و نابود فرمائے جو محض دُنیاوی فوائد کے حصول کے لئے مسلمان گھروں کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔