فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس: جب کسی آرمی افسر کی موت نہیں ہوئی تو دفعہ 302 کیسے لگا دی؟ جسٹس مظاہرنقوی ، آرمی ایکٹ ایک مخصوص کلاس پرلگتا ہے سب پر نہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

 فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس: جب کسی آرمی افسر کی موت نہیں ہوئی تو دفعہ 302 کیسے لگا دی؟ جسٹس مظاہرنقوی ، آرمی ایکٹ ایک مخصوص کلاس پرلگتا ہے سب پر نہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس
سورس: File

اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں 62 جگہوں پر حملہ کیا گیا، ان حملوں میں 52 افراد زخمی ہوئے، 9 مئی کو املاک کو 2.5 ارب کا نقصان پہنچا، فوجی تنصیبات کو تقریباً 1.5ارب کا نقصان پہنچایا گیا جبکہ 149 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ون پر حملہ کرکے حملہ آور اندر داخل ہوئے، جی ایچ کیو میں فوجی مجسمے کو بھی توڑا گیا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نو مئی کو ملک بھرمیں فوجی تنصیبات پر تقریباً ایک ہی وقت میں حملے کیے گئے، حملہ آوروں نے 9 مئی کو پٹرول بم استعمال کیے۔مختلف علاقوں میں فوجی تنصیبات سمیت املاک کونقصان پہنچایا، میانوالی میں ایم ایم عالم کا استعمال کردہ جہاز توڑ دیا گیا، جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی میوزیم پر حملہ کیا گیا، جی ایچ کیو میں آرمی سگنل آفسز میس پر حملہ کیا گیا، آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پرحملہ کیا گیا، آئی ایس آئی حمزہ کیمپ راولپنڈی پربھی حملہ کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا مظاہرین نے مسجد پر بھی حملہ کیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مظاہرین نے کور کمانڈر ہاؤس کے اندر مسجد پر بھی حملہ کیا  یہاں تک کہ ایک حملہ آور نے کور کمانڈر کی وردی بھی پہن رکھی تھی۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ سی ایم ایچ ایبٹ آباد پر بھی حملہ کیا گیا اور موٹروے ٹول پلازہ بھی جلا دیا گیا تھا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ فوجی افسران کی پولیس کی طرح مظاہرین سے نمٹنے کی تربیت نہیں ہوتی۔ جس پر چیف جسٹس نےسوال کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتےہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا فوجی افسران کو اس طرح کے جتھوں کو منتشرکرنا نہیں سکھایا جاتا۔

اٹارنی جنرل نے کورکمانڈر ہاوس لاہور کی تصاویر عدالت میں پیش کیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصاویردکھانے کامقصد یہ ہے 9 مئی کوئی حادثہ نہیں تھا، یہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کیے گئے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ راولپنڈی بار کیس میں سول نوعیت کے جرائم کو آرمی ایکٹ میں لے جایا گیا تھا۔جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس وقت حالات مختلف تھے، ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم کی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات پر جن جرائم کے تحت چارج لگایا گیا یہ آرمی ایکٹ کے اندر  ہی آتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس  دیے کہ جن افراد کا آپ ٹرائل کرنا چاہ رہے ہیں وہ سویلینز ہیں، کیا آرٹیکل 175 ٹو کو مد نظر رکھے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے؟

اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں  قابل غور بات یہ ہے کہ  آپ کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات اپنی نوعیت کے پہلے واقعات تھے، آپ کے مطابق پہلے کبھی بھی کسی سویلین نے فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا؟

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ جو 102 افراد فوجی حراست میں ہیں ان کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے گا، ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ کے اختیارات دوسرا کون استعمال کرسکتا ہے؟  چیف جسٹس نے کہا کہ فوجداری معاملات کا ماہر نہیں ہوں مگر جو دفعات لگائی گئی ہیں ان کو بھی دیکھنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی سوالات سے پہلے کچھ سوالات کا جواب ضروری ہے، درخواست گزار یہ نہیں کہہ رہے کہ ان افراد کو رہا کردو اور سزا نہ دی جائے، صرف یہ بتادیں کیسے ان افراد کا کیس غیرجانبداری سے دیکھا جائے گا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کے جرائم سول نوعیت کے نہیں ہیں، ملزمان پر دفعہ 302 کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔

جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے پوچھا کیا کسی آرمی افسر کی موت بھی ہوئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی آرمی افسر کے جانی نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں۔

جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے کہا کہ جب کسی آرمی افسر کی موت نہیں ہوئی تو دفعہ 302 کیسے لگا دی گئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ دلائل کسی کی ہدایات پر نہیں دے رہا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا اس معاملے پر آپ ہدایات لے لیں۔

اٹارنی جنرل نےایک بار پھر فل کورٹ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جو آج حقائق بتائے ان کی بنیاد پر کہا تھا کہ فل کورٹ بنا کر یہ کیس سنا جائے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کی سزائیں اور نوعیت مختلف ہے۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ تفتیش میں پریزائڈنگ افسر کون ہوگا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل پریزائڈنگ آفیسر ہوں گے، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ٹرائل میں نہیں ہوں گے، سمری کورٹ مارشل میں فیلڈ کورٹ مارشل ہوتا ہے لیکن وہ مختلف چیز ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکشن 7 کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟ جس  پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن 7 اور 9 کے تحت ملٹری عدالتوں میں سزا دو سال قید ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہی سزا زیادہ سے زیادہ بنتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی یہی سزا بنتی ہے۔  چیف جسٹس نے کہا کہ سول عدالتوں میں تو پھر  اس سے بہت زیادہ سزا زیادہ بنتی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے سویلینز کو آرمی ایکٹ کےدائرے میں لائیں گے کیسے؟  اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل بھی عرض کی تھی آرٹیکل 175 (3) کہتا ہے ایگزیکٹو اور عدلیہ الگ ہیں۔ 

جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا اب آپ آئینی نکات اٹھا رہے ہیں؟ 9 مئی کےحقائق کے بعد یہ بتائیں کہ کیسے ملزمان کے ٹرائل منصفانہ ہوں گے، ٹرائل کے خلاف بھی اپیل کا حق کیوں نہیں ہوسکتا؟

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مجھے نہیں یاد اس طرح کے حملے کبھی پہلے فوجی تنصیبات پر ہوئے ہوں، بلاشبہ 9 مئی کو ہونے والے حملے بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد ٹرائل میں جانے کو تیار ہیں لیکن ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ اپیل کا حق آرمی ایکٹ کے تحت دے دیں، آئینی ترمیم لائیں عدالت سے اپیل کا حق کیوں مانگ رہے ہیں؟ جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی بار اور لیاقت حسین کیس میں دی گئی گائیڈ لائنز کو آپ پورا کرلیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کلبھوشن کیس میں ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹ کے فیصلے کے خلاف مخصوص کیس میں اپیل کا حق دیا گیا تھا۔

اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آئین ہر شخص کو بنیادی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، موجودہ کیس میں بھی بنیادی حقوق کی فراہمی اہم سوال ہے، تمام گرفتارافراد کے بنیادی حقوق اس پورے عمل کے دوران محفوظ ہونے چاہیے تھے لیکن گرفتار افراد سے متعلق معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں نہ ان کے نام پبلک کیے گئے۔

جسٹس منیب اختر نے وضاحت کرتے ہوئےکہا کہ آرمی ایکٹ ان لوگوں کیلئے ڈیزائن کیا گیا جن پر بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ میں کوئی غلطی نہیں، بس اس قانون کوبنایا ہی مخصوص افراد کیلئے گیا ہے۔  جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ان افراد کو بھی آرمی ایکٹ کے دائرے میں گھسیٹا جا رہا ہے جن کے بنیادی حقوق کا تحفظ آئین دیتا ہے۔ 

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ کو ایک تجویز دیتے ہیں آرمی ایکٹ پر ہدایات لے لیں، آرمی ایکٹ ایک مخصوص کلاس پرلگتا ہے سب پر نہیں لگتا، آپ ایک دو دن کا وقت لے لیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ پرسوں تک کا وقت دے دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال پر بھی ہدایت لیں کہ ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہوگا یا نہیں۔

بعد ازاں چیف جسٹص نے کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی۔

مصنف کے بارے میں