سینیٹ میں آئینی ترمیم کا بل منظور کروانے میں ایک ووٹ کی کمی کا سامنا

 سینیٹ میں آئینی ترمیم کا بل منظور کروانے میں ایک ووٹ کی کمی کا سامنا

اسلام آباد:حکومت کو سینیٹ میں آئینی ترمیم کا بل منظور کروانے میں ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے  جس کی وجہ سے حکومتی بینچوں کے لیے یہ ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔

موجودہ صورتحال کے مطابق، سینیٹ میں حکومت کے پاس پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، اور ایم کیو ایم کے 3 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو 4 آزاد ارکان، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے 3 ارکان، اور نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے 1، 1 سینیٹرز کی حمایت بھی حاصل ہے۔

حکومت کے دعوے کے مطابق ان کے پاس سینیٹ میں اس وقت مجموعی طور پر 59 ارکان کی حمایت موجود ہے۔ اگر جمعیت علمائے اسلام (ف) (جے یو آئی-ف) بھی حکومت کا ساتھ دیتی ہے، تو یہ تعداد 64 تک پہنچ جائے گی، جو کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت ہے۔

تاہم، یہاں حکومت کو ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔ چونکہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اپنے عہدے کے باعث ووٹ نہیں ڈال سکتے، اس لیے ان کی غیر موجودگی میں حکومتی ووٹوں کی تعداد 63 تک محدود ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے، کیونکہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 64 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ ایک حساس صورتحال ہے جہاں حکومت کو دیگر جماعتوں یا آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ یہ اہم آئینی ترمیم سینیٹ سے منظور کروا سکے۔