اللے تللے والی حکومتیں

اللے تللے والی حکومتیں

یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ کوئی ایک شعبہ جس میں ترقی کی ہو۔ ہاں الیکشن مہم کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے لیپ ٹاپ اسکیم جاری ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہے اور ایسے میں اس قسم کی مہم سے معاشرے میں تعمیر و ترقی کے کون سے در وا ہوں گے۔ یہ وہ ڈرامہ ہے جو شہباز کرے پرواز پہلے بھی کر چکا ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ روٹی کپڑا اور مکان ہے اور یہ سب اس کی دسترس سے باہر ہو گیا ہے۔ اشیائے خورد و نوش پر سب سڈی ختم کر کے خزانے کے منہ دوسرے کاموں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
کل میں ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس بیٹھا تھا وہ بتا رہا تھا کہ بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔ زمین کی خرید و فروخت پر بے تحاشا ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں اور لوگوں نے زمین میں سرمایہ کاری بند کر دی ہے۔ جو لوگ گھر بنانے کے لیے زمین خریدنے پر مجبور ہیں ان پر بے تحاشا ٹیکس کا بوجھ ہے۔ وہ بھی اسی کوشش میں ہیں کہ کس طریقے سے کم سے کم ٹیکس دیا جا سکے۔ جہاں تک صوبے کی نگران حکومت کا تعلق ہے تو اس سے کسی کو کیا امید ہو سکتی ہے۔
شہباز حکومت کی کوشش تھی کہ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لے کر اس کا سارا بوجھ نگران حکومت پر ڈال دیا جائے لیکن ایسا ہو نہیں سکا اور اسے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت فوری طور پر بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ اگلے مہینے سے جو بل آئیں گے وہ عوام کی سکت سے باہر ہوں گے۔ یہ گمان بھی کیا جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کیلے
بعد ڈالر کی قیمت میں کمی آئے گی وہ کمی کہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ گزشتہ ایک ہفتے میں ڈالر کی قیمت میں دس روپے کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسحق ڈار صاحب کی پھرتیاں معیشیت کو بہتر بنانے کے لیے تھیں لیکن وہ تو عوام پر بوجھ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کل میں ایک پٹرول پمپ پر تیل ڈلوانے کے لیے گیا تو پتہ چلا کہ تیل نہیں مل رہا۔ وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ پٹرول کو ہائی اوکٹین کے ریٹ پر بیچا جا رہا ہے۔ پٹرول مافیا عوام کو لوٹ رہا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں۔
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قمیت نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ ایک طرف مہنگائی کا طوفان ہے تو دوسری طرف اس کا اثر برآمدات پر پڑ رہا ہے۔ لیٹر آف کریڈٹ نہ کھلنے کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک ان کے معاہدے پرانے نرخوں پر ہو رہے ہیں اور اندرون ملک ان پٹس میں دو سے تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ لیبر کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ اگر ملک میں مہنگائی نہ ہوتی تو برآمد کنندگان کے وارے نیارے ہوتے لیکن را میٹریل اور مہنگائی کا سارا اثر برآمدات پر پڑ رہا ہے۔
اشیائے خورونوش کو دیکھ لیں۔ چینی کی قیمت 150 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ سینسیٹو پرائیکس انڈیکس کے اعدادوشمار کے مطابق آٹے کی قیمت میں 126 فیصد، سگریٹ کی قمیت میں 110 فیصد، چائے 98 فیصد، چاول کی قیمت میں 80فیصد، آلو کی قمیت میں 60فیصد، ٹماٹر کی قیمت میں 57 فیصد، نمک میں 53 فیصد اور بریڈ کی قیمت میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر مہنگائی میں 29.16 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی دیکھیں کہ سارے کا سارا بوجھ عوام پر منتقل ہو رہا ہے اور حکومتی اعمال کے اللے تللے جاری ہیں۔ پنجاب میں پنشن میں 5فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں اور دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ 2.34 ارب روپے اس مد میں جاری کیے گئے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر سے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے نئی لگژری گاڑیاں خریدی جائیں۔ اگر تو ان کے پاس پہلے سے گاڑیاں موجود نہیں تو انہیں نئی گاڑیاں ضرور دیں لیکن ان کے پاس پہلے سے کئی کئی گاڑیاں موجود ہیں۔ حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ اس وقت جو ڈبل کیبن گاڑیاں اسسٹنٹ کمشنرز استعمال کر رہے ہیں وہ تحصیل دار صاحبان کو دے دی جائیں گی تاکہ ان کی کارکردگی میں اضافہ کیا جا سکے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شہبازشریف کی حکومت نے اسسٹنٹ کمشنرز کو نئے ڈبل کیبن خرید کر دیے تھے۔ تحصیل دار اس وقت 1990 ماڈلز کی جیپ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے لیے نئی گاڑیوں کی ضرورت کو سمجھا جا سکتا ہے لیکن ان کی آڑ میں کمشنر سے لے کر تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو نئی گاڑیاں خرید کر دینا کفائت شعاری کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پنجاب حکومت سیکریٹریٹ ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے دو سے تین ارب روپے کا پیکیج دینے کی تیاری کر رہی ہے۔ دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ قومی اسمبلی کو یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برس میں پمز ہسپتال کے لیے کوئی نیا وینٹیلیٹر نہیں خریدا گیا اور آپ کو یاد ہے کہ اس دوران کووڈ کی وبا بھی پاکستان میں آئی تھی۔ اس وقت پمز میں 76 وینٹیلٹرز میں سے 66 کام کر رہے ہیں۔