خیبرپختونخواہ کے سیلاب متاثرین کو بینک اکاؤنٹس کے ذریعے رقوم کی ادائیگی کا آغاز

خیبرپختونخواہ کے سیلاب متاثرین کو بینک اکاؤنٹس کے ذریعے رقوم کی ادائیگی کا آغاز

پشاور (عبدالقیوم آفریدی) خیبرپختونخو امیں حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی مالی معاونت میں آسانی اور شفافیت لانے کےلئے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے رقوم کی ادائیگی شروع کر دی گئی ہے۔ متاثرین کی بلا تفریق امداد اور رقوم کی تقسیم کے طریقہ کار میں شفافیت لانے کی غرض سے چیک کی بجائے اب متاثرین کو امدادی رقوم بینک اکاؤنٹ میں منتقل کی جارہی ہے جس کے باعث امداد کے حصول میں درپیش مشکلات کم ہونے لگی ہیں۔ 
تفصیلات کے مطابق پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی خیبرپختونخوا کا کہنا ہے کہ صوبے میں حالیہ سیلاب میں جاں بحق ہونے والے 309 افراد کے لواحقین کو صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 8,8 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جاچکاہے، یہ تمام رقوم بینک اکاونٹس کے ذریعے جاں بحق افراد کے لواحقین کو منتقل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب میں جن شہریوں کے گھروں کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا تھا انہیں اب تک مجموعی طور پر 4ارب74 کروڑ 18 لاکھ 40ہزار روپے کی امدادی رقم بینک اکاونٹس کے ذریعے بھجوائی جا چکی ہے۔
حالیہ سیلاب میں پی ڈی ایم کی جانب سے 63ہزار سے زائد گھروں کا سروے کیا گیا تھا۔59 ہزار 527 گھر وں کو نقصان پہنچا تھا، 47ہزار 861 گھروں کے متاثرین کو امداد دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ امدادی رقوم کے حصول کےلئے پی ڈی ایم اے کی ہدایت پر 29ہزار234 متاثرین کےلئے بینک اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں جن میں اب تک 19ہزار 447 اکاونٹس کے ذریعے متاثرین کو رقوم بھجوائی جاچکی ہے۔گزشتہ سال خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں سیلاب آیا تو صوبائی حکومت نے نقصان کے ازالے کا اعلان کیا۔ 
صوبائی حکومت 15جون سے 15ستمبر تک آنےوالے سیلاب کے متاثرین کےلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جس کے مطابق جاں بحق افراد کے ورثہ کو8،8 لاکھ روپے ، تباہ شدہ گھروں کے مالکان کو4لاکھ اور جزوی نقصان پہنچنے والے گھروں کے مالکان کو 1لاکھ 60ہزار روپے فی گھر معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ 
ترجمان پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان تیمور علی کا کہناہے کہ پہلے قدرتی آفات کی صورت میں متاثرین کو متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ براہ راست امدادی چیک دیتی تھی لیکن اس مرتبہ چونکہ سیلاب میں نقصانات زیادہ ہوئے اور ضلعی انتظامیہ پر کام کا بوچھ زیادہ تھا اس کے علاوہ ماضی میں امداد کے حصول مشکلات کی شکایات آتی تھی اور شفافیت پر بھی سوالات اٹھتے تھے لہٰذا اس مرتبہ اتھارٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام متاثرین کو بینک اکاؤنٹس کے ذریعے براہ راست معاوضہ ٹرانسفر کیا جائے گا، اتھارٹی کا یہ فیصلہ اب تک پہلے سے زیادہ موثر اور شفاف ثابت ہوا ہے۔
امدادی رقوم کے نئے طریقہ کار سے متعلق چارسدہ کے علاقہ خیالی کے رہائشی گلاب خان نے بتایا کہ حالیہ سیلاب میں اس کے گھر میں ایک کمرہ اور 90 فٹ کی دو دیوار گر گئیں تھیں۔ سیلاب کے بعد انتظامیہ کے لوگ آئے ، پورے علاقے میں متاثرہ گھروں کا سروے کیا ، تصاویریں کھینچی اور معلومات اکٹھے کئے۔ ایک ماہ بعد گلاب خان کو اطلاع ملی کہ ان کا بینک اکاؤنٹ کھول دیا گیا ہے جس میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا معاوضہ بھجوادیا جائے گا، فون کے اگلے روز بینک آف خیبر کے مقامی برانچ گیا جہاں پر ضروری کارروائی کے بعد بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم کی گئی اور ایک کارڈ بھی دیا۔ 
انہوں نے بتایاکہ تقریباً دو ہفتے بعد موبائل فون پر مسیج موصول ہواکہ میرے بینک اکاؤنٹ میں دو لاکھ 60ہزار روپے ٹرانسفر کر دئیے گئے ہیں جس کے بعد مذکورہ رقم بڑی آسانی کے ساتھ بینک سے نکال کر گھر میں دیواروں کی تعمیر کردی۔ گلاب خان کا کہناتھاکہ حکومت کا فراہم کردہ معاوضہ انتہائی کم ہے کیونکہ 2لاکھ 60ہزار روپے پر محض 90فٹ دیواروں اور ایک کمرے کی بنیاد ہی تعمیر ہوسکی باقی دیواروں کی تعمیر کےلئے قرضہ لینا پڑا۔
امدادی رقوم کی ترسیل کے نئے طریقہ کار سے جہاں کافی لوگ خوش ہیں تو کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جن کو آن لائن طریقہ کار سے معاوضہ بھجوانے سے مشکلات ہیں۔ چارسدہ کے علاقہ چالا بیلہ کی خاتون مسماة (س) نے بتایا کہ وہ نئے طریقہ کار کو سمجھنے سے قاصر ہیں، کہتی ہے کہ سروے تو ہوچکا ہے لیکن بینک اکاؤنٹ کے ذریعے پیسے آنےوالے کاطریقہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس علاقے میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھنے نہیں ہے اسلئے پرانا طریقہ ہی بہتر تھا۔ 
اس حوالے سے ترجمان پی ڈی ایم تیمور علی نے واضح کیا کہ ایسے متاثرین جو نئے طریقہ کار سے ناواقف ہے ان کےلئے پی ڈی ایم اے نے متعلقہ اضلاع میں بینک آف خیبرکے برانچ میں خصوصی انفارمیشن ڈیسک قائم کئے گئے ہیں جہاں پر متاثرین کو تمام معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ بعض جگہوں سے امدادی رقم کے حصول میں تاخیر کی شکایات سے متعلق ترجمان پی ڈی ایم اے کا کہناتھاکہ اس مرتبہ شفافیت کو یقینی بنانے کےلئے نادرا سمیت متعلقہ محکموں اور اداروں سے تصدیق کروائی جاتی ہے جس میں وقت لگتا ہے لیکن معاوضے تمام متاثرین کوہی دئیے جائیں گے۔

مصنف کے بارے میں