اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی رائے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ارسال، ججز الزامات کی تحقیقات کی تجویز دی گئی نہ ثبوت پیش کیے گئے:سینئر صحافی کی رپورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی رائے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ارسال، ججز الزامات کی تحقیقات کی تجویز دی گئی نہ ثبوت پیش کیے گئے:سینئر صحافی کی رپورٹ

اسلام آباد:  عدالتی امور میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مبینہ مداخلت کو روکنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی متفقہ رائےرجسٹرار سپریم کورٹ کو ارسال کردی گئی ہے۔ 

سینئر صحافی انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق  اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے تجویز دی ہے کہ کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی یا ادارے کا کوئی اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کرے تو ایسی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ آیا اس معاملے کو متعلقہ ایجنسی یا ادارے کے ساتھ اٹھایا جائے یا توہین عدالت کی کارروائی کیلئے آرٹیکل 204؍ کے تحت کیس کو عدالتوں میں بھیجا جائے۔

 انتظامیہ کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں دونوں اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں۔ عدالتی معاملات میں مداخلت کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا متعلقہ جج واقعے کے سات روز کے اندر یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کرے گا۔ اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے ججز بھی سات دن کے اندر انسپکشن ججز کو ایسے معاملات کی اطلاع دیں گے۔ تاہم، اگر ضلعی عدالت کا جج اس معاملے کی اطلاع نہیں دیتا تو اس جج پر مس کنڈکٹ کا الزام عائد کیا جائے گا اور تادیبی کارروائی کی جائے گی اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کیلئے ایسی کوئی تجویز نہیں۔

 ذرائع کے مطابق خط میں ان مبینہ واقعات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا جن کا ذکر 6؍ ججز نے اپنے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کیا تھا یہ خط بھی عام کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے حوالے سے مبینہ واقعات کی تحقیقات کی کوئی تجویز پیش کی گئی ہے نہ ہی عائد کردہ الزامات کا کوئی ثبوت سپریم کورٹ کو پیش کیا گیا ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ اجلاس چند روز قبل ہوا تھا جس میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مبینہ مداخلت کو ختم کرنے کیلئے اقدامات متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ججز نے اس معاملے پر خوشگوار انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس معاملے پر ججوں کا ’’متفقہ نقطہ نظر‘‘ از خود سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

مصنف کے بارے میں