غربت اور ہمارے تعلیمی مسائل

غربت اور ہمارے تعلیمی مسائل

ہمارے ہاں جون کا مہینہ ہر سال اپنے ساتھ ایک بجٹ اور ڈھیر سارا زبانی جمع خرچ لے کر آتا ہے۔ ہر سال پرنٹ،الیکٹرانک اور خاص کر سوشل میڈیا پر ایک طویل بحث کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور بجٹ کے مختلف حصوں خصوصاً تعلیم کا دفاع اور دیگر شعبوں کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔دیگر ممالک کے تعلیمی اخراجات کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔لیکن نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔
  ہر ذی شعور آدمی پاکستان میں تعلیم کی دگرگوں حالت کو جانتا ہے لیکن کیا اس کی وجہ صرف محدود تعلیمی بجٹ ہے؟ کیا پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کیلئے رقم موجود نہیں؟اور کیا اگر آدھا بجٹ تعلیم کیلئے مختص کر دیا جائے تو پاکستان کے تعلیمی مسائل حل ہو جائیں گے؟ 
ایک نظر اعداد و شمار پر ڈالی جائے تو اس سال تقریباً 9.5کھرب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا جس میں تعلیم کیلئے 90 ارب روپے مختص ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیلئے 65ارب روپے اس کے علاوہ ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو صرف وفاق کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں پر خرچ ہو گی۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد چونکہ تعلیم ایک صوبائی معاملہ ہے اس لیے ہر صوبہ اپنے بجٹ میں تعلیم کیلئے رقم الگ مختص کرتا ہے۔ صوبائی حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب میں کل بجٹ کا تقریباً 15فیصد، بلوچستان میں 13فیصد، سندھ میں 19فیصد جبکہ خیبر پختونخواہ میں تقریباً 20 فیصد تعلیم کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ کل قومی پیداوار(جی ڈی پی) کو دیکھا جائے تو ہمارا تعلیم پر خرچ اس کا تقریباً 2.2فیصد بنتا ہے۔ان اعداد و شمار کا موازنہ دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صورتحال کافی مختلف ہے۔مثلاً بھارت اپنی کل قومی پیداوارکا تقریباً 3.5فیصد جبکہ نیپال 4.4فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔صرف بنگلہ دیش کے تعلیمی اخراجات ہم سے کم ہیں جو 2019 میں جی ڈی پی کے 1.33فیصد کے برابر تھے۔عالمی سطح پر ہر ملک اوسطاً اپنے جی ڈی پی کا 4.4فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔
تعلیمی اعداد و شما رکو دیکھا جائے تو پاکستان میں شرح خواندگی تقریباً 62فیصد ہے۔ یعنی ہماری 38فیصد آبادی آج بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں اور اس معاملے میں ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھا جائے تو تعلیمی بجٹ میں اضافہ تو ناممکن ہے۔چنانچہ اس امکان کو رد کرتے ہوئے کچھ دیگر پہلوؤں پر غور کیا جا سکتا ہے جن کے ذریعے تعلیمی صورتحال میں بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
پنجاب کو بطور مثال فرض کرتے ہیں۔ یہاں بنیادی تعلیم کے دو بڑے مسائل نظر آتے ہیں۔اول، اسکول سے باہر بچوں کی بڑی تعداد اور دوم،اسکول میں بچوں کو ملنے والا پست معیار تعلیم۔ ان مسائل کی ایک وجہ فنڈز کی کمی ہے، درست۔پنجاب میں اگرچہ تعلیمی بجٹ کا حجم گزشتہ کچھ سالوں سے بڑھ رہا ہے لیکن کل بجٹ کے مقابلے میں تعلیمی بجٹ سکڑ رہا ہے۔
تعلیم کیلئے مناسب فنڈز کی فراہمی اور ان کا بروقت اور مؤثر استعمال سنجیدگی کا متقاضی ہے۔تاہم ہمارے ہاں اکثر غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کے باعث تعلیم کیلئے مختص فنڈز کی تقسیم درست نہیں ہو پاتی۔پرائمری،سیکنڈری اور ہائیر ایجوکیشن کیلئے فنڈز مختص کرتے ہوئے بصیرت سے کام نہیں لیا جاتا۔مثلاً تمام اداروں کی توجہ پرائمری تعلیم پر مرکوز رہتی ہے جس کے نتیجے میں سیکنڈری ایجوکیشن کو مناسب اہمیت نہیں مل پاتی۔ اس کے علاوہ تعلیمی شعبے میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے مناسب فنڈز مہیا نہیں کیے جاتے۔مثلاً پنجاب کے حالیہ بجٹ میں تعلیم کیلئے 485 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے 428ارب جاری اخراجات پر خرچ ہوں گے جبکہ صرف 28 ارب روپے ترقیاتی اخراجات کیلئے مخصوص ہیں۔ترقیاتی اخراجات نئے اسکولوں اور نئے تعلیمی اداروں کی شکل میں ہمارے مستقبل کے اثاثے بنانے کیلئے ضروری ہیںلیکن ان کیلئے بجٹ میں بہت کم حصہ رکھا جاتا ہے۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق اس مختص کردہ رقم میں سے بھی تقریباً 30فیصد استعمال ہی نہیں ہو پاتی۔اس کے علاوہ  تعلیمی شعبے کو درپیش ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان تعلیمی فنڈز کی تقسیم مناسب طریقے سے نہیں ہو پاتی۔دیہی اور شہری علاقوں کو ملنے والے بجٹ میں واضح تفریق موجود ہوتی ہے۔اس کے علاوہ شہری علاقوں میں موجود کچھ اداروںمثلاً ماڈل کالجز، کیڈٹ کالجز وغیرہ کو وفاق کی طرف سے بھی گرانٹس کی شکل میں فنڈز مل جاتے ہیں جبکہ دیہی علاقوں کو قومی یا بین الاقوامی فلاحی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ملازمین کی تقرری،تبادلوں اوردیگر امور میں سیاسی مداخلت کے باعث تحصیل اور ضلعی سطح پر فنڈز تعلیمی نظام کے اندر جذب نہیں ہو پاتے۔ اس کے علاوہ محکمہ تعلیم کے اندر مناسب ٹریننگ اور احتساب کا نظام بھی موجود نہیں۔ترقیاتی اخراجات کے علاوہ روزمرہ کے اخراجات کیلئے بھی تعلیمی اداروں کو فنڈز کی فراہمی بہت دیر سے عمل میں آتی ہے جس کے باعث اسکولوں اور کالجوں کی روزمرہ کی ضروریات متاثر ہوتی ہیں جس کا حتمی نتیجہ غیر معیاری تعلیم کی صورت میں نکلتا ہے۔اس کے علاوہ اسکول اور کالج انتظامیہ کی طرف سے اکثر بوگس رسیدیں بنا کر فنڈز نکلوا لیے جاتے ہیں۔خیر اس پر اب کیا کہا جائے!
دوسرا،تعلیم کیلئے مختص بجٹ کا ایک بڑا حصہ وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔یہ فنڈز کا سراسر ضیاع ہے۔ان عہدوں اور محکموں کو کم سے کم کر کے فنڈز کا رخ تعلیمی اداروں کی طرف موڑا جائے۔تعلیمی اداروں کا انتظام اساتذہ یا مقامی بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جائے۔
تیسرا، جو فنڈز موجود ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ احتساب کا نظام مضبوط ہو، تنخواہیں یا ترقیاں کارکردگی کے ساتھ منسلک کی جائیں اور سرکاری محکموں میں جزا و سزا کا نظام لاگو کیا جائے۔
اس تمام تر قضیے کو دیکھتے ہوئے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں تعلیم کیلئے پیسوں سے زیادہ ایک اچھی نیت اور ایک قومی عزم کی ضرورت ہے۔کوئی بھی قوم ہمیشہ سے امیر نہیں ہوتی۔ہمارے سامنے ایسی کئی قومیں موجود ہیں جنہوں نے غربت سے اپنا سفر شروع کیا لیکن صرف تعلیم کے ساتھ آج دنیا میں ایک اچھا مقام حاصل کر چکی ہیں۔