سیاسی فکر میں یوٹرن کی شدید ضرورت

سیاسی فکر میں یوٹرن کی شدید ضرورت

پاکستان جو کہ پہلے ہی غذائی قلت کے خدشات کا شکار تھا حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد اگلے سال سنگین غذائی بحران کے خطرے سے دوچار ہے کیونکہ سندھ میں جو کہ گندم کی پیداوار کا اہم صوبہ ہے وہاں گندم کاشت کیے جانے والے علاقوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے جس سے گندم کی بوائی مشکل نظر آتی ہے۔ 
گندم کی سرکاری قیمت جو کہ 3500 روپے من مقرر کی گئی ہے اگر یہی گندم روس سے منگوانا پڑی تو اس کی قیمت اور کرائے کی لاگت 5000 روپے من سے بھی زیادہ ہوگی اور اس کی کوالٹی بھی پاکستانی گندم جیسی نہیں ہو گی جس سے ملک میں مہنگائی کا بحران جو پہلے ہی آسمان کو چھو رہا ہے آتشزدگی میں بدل جائے گا مگر اس پر کوئی قومی ڈیبیٹ نہیں ہے۔ اسی طرح کی ایک اور خبر ہے کہ کراچی کی ایک یونیورسٹی کے طالبعلموں نے تجرباتی طور پر بانس سے بنا ہوا ایک ایسا Bamboo House تیار کیا ہے جو Flood Proof ہے یعنی یہ بارش یا سیلاب سے منہدم نہیں ہوتا اور سیلاب زدہ علاقوں یا دریاؤں کے قریبی آبادیوں میں اس طرح کے گھروں کو رواج دیا جائے تو ایک تو یہ سیلاب کو برداشت کر جاتے ہیں دوسرا ان کی قیمت بہت کم ہے تیسرا Moveable یا نقل مکانی کے لیے موزوں ہیں کیونکہ اس کے اجزا کو کھول کر دوسری جگہ ری اسمبل کیا جا سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 15 ارب کا نقصان اٹھانے ملک کی ایک چوتھائی آبادی کے Displace ہونے کے باوجود ہمارے قومی سطح پر کہیں یہ Debate نہیں چل رہی کے ساؤتھ پنجاب یا سندھ میں بانس کے گھروں کو فروغ دیا جائے۔ 
ہمارے یہاں نئی سیاسی روایت یہ آئی ہے کہ اصل قومی امور سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے چھوٹے چھوٹے اور غیر اہم اور غیر سنجیدہ یا Frivlous موضوعات کو قومی ایشو بنا کر لانچ کر دیا جاتا ہے جس سے اصل موضوعات ان کے نیچے دب جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج کل لندن میں مریم اور نگزیب کسی ریسٹورنٹ میں کافی کا کپ خریدنے کے دوران وہاں اپوزیشن جماعت کے ایک گروپ کی یلغار کی ویڈیو کافی وائرل ہے جس میں تبا یا جا رہا ہے کہ کافی کا یہ کپ 200 ڈالر کا ہے جو کہ قوم کے پیسے سے لیا گیا ہے اس ویڈیو کے مندرجات کو غور سے دیکھیں تو یہ کسی خاتون کی ہراسگی کے زمرے میں آتے ہیں جس ملک میں یہ ہوا ہے وہاں کسی کی اجازت کے بغیر خاتون کی زبردستی فلمبندی کرنا لاؤڈ سپیکر پر اس کے خلاف منافرت انگیز Hate Speach کرنا قابل دست اندازی پولیس سے مریم اور نگزیب کے ساتھ مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ میں ایسا ہوچکا ہے اپوزیشن کا یہ طریقہ کسی بھی مہذب معاشرے میں روا نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں اس کو ایسے بریکنگ نیوزبنا کر پیش کیا گیا کہ جیسے سار ے پاکستان کا مسئلہ ہی یہ ہے۔ سیاست میں معیار اتنا پست ہو چکا ہے کہ ہم صرف سکینڈل کی تلاش میں ہیں۔ 
اس طرح کی ایک اور Hype نے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق ہے ہر یوٹیوب پر اس موضوع پر طرح طرح کے تبصرے کئے جار ہے ہیں حالانکہ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی 
بھی برسر اقتدار سیاسی پارٹی اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر یا آرمی چیف کو توسیع دے کر اپنے اقتدار کے لیے کوئی extension حاصل کرے گی تو یہ قطعی غلط ہوگا اس سلسلے میں تاریخ کا مطالعہ کافی ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے البتہ اس غیر ضروری عوامی ڈیبیٹ سے ملک کی اصل مسائل سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ 
پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ آج کل وزیراعظم کی ذاتی پرا جیکشن میں مشغول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شنگھائی کو آپریشن آرگنا ئزیشن کے اجلاس سے لے کر اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس تک شہباز شریف نے 40 ممالک کے سر براہان سے ملاقات کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جو بھی وزیراعظم ہوتا یہ ملاقاتیں بھی ہونی تھیں اور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب بھی ہونا تھا یہ حسن اتفاق ہے کہ تاریخ کے اس لمحہ موجود میں پاکستان کے وزیرا عظم شہباز شریف تھے اور یہ پاکستان کے لیے بلکہ ان کے لیے اعزاز ہے کہ انہیں نمائندگی کا موقع ملا ہے۔ البتہ اس موقع پر پاکستان کی وزارت خارجہ کو یہ اعزاز جا تا ہے جنہوں نے ان دونوں مواقع پر بھر پور تیاری کی اور بائیڈن کے پاکستانی وزیراعظم کو فون نہ کرنے کے پرانے ایشو کو بالائے طاق رکھ کر شہباز شریف کی اور بائیڈن سے ملاقات کا اہتمام کرایا۔
تاریخ کے بد ترین سیلاب کے باوجود اپوزیشن کے سیاسی جلسے جاری و ساری رہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے سیلاب زدہ علاقوں میں جانے اور بحالی کا کام کرنے کی بجائے شہر شہر جلسے کرنے کو تر جیح دی۔ پاکستان کے سابق وزرائے اعظم میں سب سے زیادہ ہیوی سکیورٹی عمران خان کی ہے جس میں 450 سے زیادہ پولیس اہل کار شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب اور KP حکومتوں نے بھی انہیں اضافی سکیورٹی دے رکھی ہے جبکہ بنی گالہ کی ذاتی سکیورٹی اس کے علاوہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے پاس برائے نام سکیورٹی ہے یہاں پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ذکر کرناضروری ہے انہوں نے سرکاری سکیورٹی لینے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں سکیورٹی کی ضرورت نہیں۔ 
سیاسی جلسوں اور انتخابات کے ذکر میں یہ امر ملحوظ نظر رکھیں کہ اپوزیشن کے سیاسی جلسوں میں کوئی ایجنڈا دینے کے بجائے ان کے ہاں محض حکومتی بدعنوانیوں کا تذکرہ ہوتا ہے یہ کام ویسے تو مریم نواز بھی کرتی تھیں مگر ان کا نمبر دوسرا ہے۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چا ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق میں یہ نئی شق شامل کردی جائے کہ امیدوار یا سیاسی جماعت کا سربراہ عوامی جلسوں میں الزام تراشی کا مجاز نہ ہو دوسرے نمبر پر وہ پابند ہو کر اپنی تقریروں میں واضح پروگرام دے کہ اگر وہ اور ان کی پارٹی منتخب ہوگئے تو ووٹرز کیلئے کیا کریں گے اگر یہ دو شرائط لاگو کر دی جائیں تو ملک کی قومی سیاسی فضاء کافی بہتر ہو سکتی ہے۔ اب تو نوبت گالی گلوچ تک پہنچ چکی ہے جس سے معاشرے میں برداشت تحمل اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ 
شیخ رشید کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں کابینہ کے ارکان کی تعداد پر اعتراض کی پٹیشن رد کر دی گئی ہے ان کا موقف تھا کہ تاریخ کی بھاری ترین 72 رکنی کا بینہ غیر آئینی ہے جبکہ معزز عدالت نے کہا ہے کہ یہ معاملہ پار لیمنٹ میں اٹھایا جانا چاہیے شیخ رشید جانتے ہیں کہ وہ چونکہ مستعفی ہو چکے ہیں لہٰذا وہ یہ معاملہ وہاں کیسے لے جائیں عمران خان نے عندیہ دیا تھا کہ اگرالیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے تو وہ پارلیمنٹ میں واپس آسکتے ہیں لیکن دوسرے زاویے سے دیکھیں تو اسمبلی میں واپسی کا مطلب یہ ہوگا کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی اور اپوزیشن الیکشن کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔ دوسری طرف اگر اپوزیشن اسمبلی میں واپس نہیں آئی تو آگے نگران حکومت کے چناؤ کے معاملے میں ان کا رول غیر حاضری کی وجہ سے زیرو ہو جائے گا جس سے اگلے انتخابات کا منظرنامہ متنازع ہو جائے گا۔ ہر دو صورتوں میں پی ٹی آئی کو کچھ نہ کچھ یوٹرن لینا ہی پڑے گا۔ 
آج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ واپسی دو لحاظ سے بڑی اہم ہے ایک تو انہیں ڈالر کی قیمت نیچے لانے کا ٹاسک دیا گیا ہے دوسرا ملک میں مہنگائی اور افراط زر جوکہ تاریخ کی ریکارڈ سطح پر ہے اس پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ ن لیگ کا موڈ یہ ہے کہ حکومت مزید ایک سال اسی طرح اپنی آئینی مدت پوری کرلے اور عوام کو ریلیف دے کر نئی مدت کیلئے اقتدار حاصل کیا جائے۔ ستاروں کا حال بتانے والے اس طرف دیکھ رہے ہیں مگر انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ نجومیوں کی نظریں بکرم کیلنڈر پر ہیں جس میں اس سال کاتک اور مگھر کے مہینے اہم ہیں۔

مصنف کے بارے میں