صحافت آج بھی زندہ ہے

صحافت آج بھی زندہ ہے

گزشتہ روز کالم لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ ایک دوست تشریف لے آئے اور سلام نہ دعا، بیٹھتے ہی اخبار پر غصہ نکالنے لگے۔ کسی اخبار میں لگی ایک خبر کے بارے میں بحث کرنے لگے۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ آپ لوگ عوام کو کدھر لے جانا چاہتے ہیں اور کیا ہمارے تمام اخبار اس قابل ہیں کہ ان کو اس غربت، جہالت اور بیمار زدہ گھروں میں لے جایا جا سکیں کہ آج ہمارے اخبارات میں کیا دیا جارہا ہے یعنی قتل، ڈاکے، چوریاں، اغوائ، عورتوں پر تشدد، سیاسی بدکلامیاں اور رہی سہی کسر آپ روزانہ سوشل میڈیا کی طرح عورتوں کو بے لباس اور میک اپ زدہ بھرے چہرے شائع کرتے ہیں تاکہ ہمارے گھروں میں بیٹھی بچیاں بھی وہی کریں۔ اے اخبار والو… خدا کے واسطے کچھ تو عقل کرو، اخبار ضرور بیچو کہ وہ تمہارا کاروبار ہے مگر بے حیائی ، عورت کا پرچار اور گھٹن زدہ معاشرے میں جو غلط کام ہو رہے ہیں، ان کو شہ سرخیوں میں مت لاؤ کہ ہمارا مذہب تو ان باتوں کی اجازت نہیں دیتا کہ ان کا پھیلائو کیا جائے۔ اخبارات تو قوم کے رہنما ہوتے ہیں اور اخبارات ہیں کہ ہماری رہنمائی کرنے کی بجائے معاشرے کے برے لوگوں کا حصہ کیوں بن رہے ہیں۔ کیوں قاتلوں، غنڈوں اور برے لوگوں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے۔
آپ کو احساس ہے کہ آپ کی بطور صحافی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم کو کس جہاد کا پیغام دیا ہے؟ نہیں! افسوس کہ آپ بھی مقابلے کی دوڑ میں، آپ بھی دنیاوی حسن، دولت کی ہوس، جو دل میں آئے اس کو چھاپ دو کی پالیسی اپنا چکے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ کون کیا اور کیوں کر رہا ہے؟ آپ ان بے ضمیر لوگوں کے کردار کو سب کے سامنے کیوں نہیں لاتے جو ہماری نئی نسل کو تباہی کی جانب لے جا چکے ہیں۔ آپ ان قاتلوں کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے جو بے گناہوں کو مار دیتے ہیں اور قانون ان کو پکڑتا نہیں، آپ راشی افسروں کی کہانیاں کیوں نہیں چھاپتے جو دن رات عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ آپ کیبل اور ڈش پر فحاشی اور سوشل میڈیا پر گندگی کے پھیلاؤ کے خلاف کیوں نہیں لکھتے۔ آپ گھروں میں اور کیبل کے ذریعے جو ڈانس، بیہودہ گانے اور فلمیں دکھائی جارہی ہیں، ان کے خلاف قلم کی آواز کو بلند کیوں نہیں کرتے۔ آپ کے اخبارات کے جو نام ہیں، وہ تو بذات خود ایک جہاد ہیں مگر یہ جہاد صرف ناموں تک کیوں مخصوص ہیں۔ ان ناموں کے اوپر جو سلوگن ہیں، وہ تو کسی بھی قوم کے رہنمائے اصول ہوتے ہیں پھر آپ ہی نے ان اصولوں کے راستے کیوں چھوڑ دیئے گئے اور کیوں غیروں کے راستے کیوں اپنا لئے؟
اصول تو رہنمائے زندگی ہے ... اصول تو خدا پر ایمان ہے… قرآن کی تقویت ہے… ایمان کا بھروسہ ہے…
پھر آج کے صحافی کے قلم نے ان اصولوں کو کیوں فراموش کر دیا ہے۔ ظلم کے خلاف جہاد ہم سب کا ایمان ہے پھر ہم نے اس ایمان کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا ہے، ہم نے اسلامی کلچر کی بجائے عورت اور سوشل میڈیا کے کلچر کا لبادہ کیوں اوڑھ لیا ہے؟ میرے اوپر لفظوں کی شدید گولہ باری کرنے کے بعد آخر میں وہ ایک اور بات کہہ گئے کہ بے حیائی کو فروخت مت کرو… یہ مسلمان کا نہیں، کافر کا کام ہے۔ نئی نسل تمہارے قلم کے اچھے پیغام کی منتظر ہے، وہ اگر بے راہ روی پر چل پڑی تو تاریخ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور تم کبھی اپنے ضمیر کے آگے سر خرو نہ ہو سکو گے…نہ چائے پی اور غصے میں اٹھے، بغیر سلام دعا لئے چلے گئے… اور میں ان کو صرف جاتا دیکھتا رہا، نہ روک سکا اور اس وقت سے سر جھکائے اپنے قلم کو دیکھ رہا ہوں کہ بات تو سچ ہے کہ اس ماحول، معاشرے، سوسائٹی اور اس ملک کو سنوارنے والوں نے عوام کو ورثے میں دیا ہی کیا ہے۔ بے شک ضمیر کی آواز قلم کی آواز ہوتی ہے اور وہ بعض اوقات حالات کو دیکھ کر اس قدر جھنجھوڑتی ہے کہ دل کرتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ دیں۔ یہ معاشرے میں جگہ جگہ پھیلی غلاظتیں، صبح سے رات گئے تمام پاکستانی اور انٹرنیشنل اخبارات، میگزین، سوشل میڈیا، انسٹاگرام اور فیس بک پر خواتین کی فحش حرکات، بے حیائی کی پوسٹیں، پیغامات، بری ترین شاعری، گالیاں، گندے فقرے بازی، یہ سب اخبارات کا پھیلا گند تو نہیں۔ میرے نزدیک اخبارات تو ابھی بھی اپنے مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ یہ تو حکومتوں کا کام ہے کہ ہماری نسل کو تباہی کی طرف لے جانے والے دروازوں کو بند کرے۔ جگہ جگہ پھیلی برائی پھیلانے والی فیکٹریوں کو بند کرے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے دوست کی آواز تو عوام کی آواز ہے، اس عوام کی جو برائی کو کسی بھی صورت میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ 
آخر ہمارے معاشرے میں یہ کیا ہو رہا ہے… ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ کس کے لئے ہے۔ ہم کسی ڈگر کے راہی تھے ہمیں کن راستوں کا مسافر بنا دیا گیا ہے۔
جھوٹی قسمیں…، جھوٹے وعدے…، جھوٹے لارے لپے…، جھوٹے پہناوے… ، جھوٹے لوگ…، چھوٹے ہاسے اور ہو کے…، منہ پر تعریف پیٹھ پہ گالیاں…، باتوں میں بناوٹ، دلوں میں کدورتیں…، اپنی کہی دوسرے کے کھاتے میں ڈال دو…، گولی چلے گی… ہم لکھیں گے…، عورت مجرا کرے گی… ہم لکھیں گے…، پولیس مقابلے ہونگے… ہم لکھیں گے…یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آج معاشرے میں پھیلی منافقت، چور بازاری، کساد بازاری کا ریموٹ کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہاتھ جب تک توڑے نہیں جائیں گے ان ریموٹ کنٹرول کو توڑا نہیں جائے گا اور آج جو ہوس اور حسد بڑھ رہی ہے یہ کون ختم کرے گا؟ یہ تو سیاسی حکومتوں اور ان کے لیڈروں کا کام تھا، ان کی لیڈرشپ کا ویژن تھا، ہم تو عشروں سے ان دونوں سے محروم ہیں۔ ہم تو اس وقت تک کچھ لکھیں گے جب یہاں اچھے معاشرے کی بنیاد نہیں ڈال دی جاتی۔ جب تک ایجوکیشن کے نظام کو جگہ جگہ نافذ نہیں کر دیا جاتا، جب تک ڈھائی کروڑ بچوں کو جو تعلیم سے محروم ہیں، ان کے لئے تعلیمی اداروں کے دروازے کھول نہیں دیئے جاتے۔ 
اور آخری بات…
جہاں تک ہمارے ضمیر اور قلم کی آواز ہے تو یہاں ایک کہاوت کا ذکر کروں گا کہ جب مجھے میرا محبوب یاد آتا ہے تو میں لکڑیاں سلگاتے ہوئے دھوئیں کے بہانے رَو لیتی ہوں ہم خود کو بھلانے کے لئے بہانوں، بہانوں سے رَو لیتے ہیں جہاں تک صحافت کا تعلق ہے تو وہ زندہ ہے۔ اس کو لکھنے والوں کے ضمیر زندہ ہیں۔ وہ لکھتے رہیں گے، ظلم کے خلاف، بے حیائی کے خلاف اور معاشرے میں گندگی پھیلانے والوں کے خلاف…!

مصنف کے بارے میں