پی ٹی آئی حکومت کے چار سال

پی ٹی آئی حکومت کے چار سال

2018ء  کے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد عمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی حکومت بن گئی۔ انتخابات دھاندلی زدہ اور متنازعہ تھے لیکن مسلم لیگ اور پی پی پی حکومتوں کی نااہلی، ناکامیوں کی وجہ سے عوام نے نئی حکومت کو برداشت کرلیا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے کے مژدہِ جاں فزاء نے عوام کی توقعات بہت بڑھادیں۔ عمران خان کے تبدیلی، سونامی اور ریاستِ مدینہ نظام کے نعروں نے عوام میں توقعات کے بلند مینار کھڑے کردیے۔ اب پی ٹی آئی کے چار سالہ دورِ اقتدار کے بعد ملک سیاسی، آئینی، جمہوری بحرانوں کی زد میں ہے۔ اپوزیشن احتجاج اور عدم اعتماد کا آئینی جمہوری راستہ اختیار کررہی ہے لیکن حکومت نے ہیجانی، شدت، انتہاپسندی اور سیاسی دہشت گردی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ریاستی عناصر، پارلیمنٹ، عدلیہ، مقتدرہ، میڈیا سب متنازعہ، مشکوک اور بے اعتمادی کا شکار کردیے گئے ہیں۔ اِن چار سالوں میں حکومتی کارکردگی کی ناکامیاں اور کامیابیاں کیا رہیں؟ ملک میں موجود سیاسی فساد اور افراتفری  کی وجوہات کیا ہیں؟  بین السطور اِن سوالات کا معروضی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
برسرِ اقتدار آنے سے پہلے عمران خان نے اپنی الیکشن مہم کے دوران لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ ملک میں ریاستِ مدینہ کی طرز پر نظام قائم کریں گے۔ عوام کے لیے ایک کروڑ نوکریاںاور پچاس لاکھ گھر بناکر دیں گے۔ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں آدھی کردیں گے۔ مہنگائی کم کریں گے۔ آئی ایم  ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ایسا’’نیا پاکستان‘‘ بناکر دیں گے جس میں کوئی شخص بے روزگار نہیں ہوگا، کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن  اِن وعدوں اور دعوؤں کے برعکس اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان سرکار کے گزشتہ چار سالہ دورِ حکومت میں عملاً پانچ لاکھ ڈگری ہولڈرز سمیت کروڑوں افراد بے روزگار ہوگئے۔ غربت، افلاس، کمرتوڑ مہنگائی، بے روزگاری اور بھوک کے باعث عوام جھونپڑیوں سے بھی محروم ہوگئے۔
قراردادِ مقاصد، آئینِ پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات نظرانداز کرکے قانون سازی کرنے کی گزشتہ حکومتوں کی  روایت  کو ریاستِ مدینہ کے سلوگن کے ساتھ وجود میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے پورے آن بان کیساتھ جاری و ساری رکھا۔ متعدد قوانین پر قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء اور سفارشات کو حسبِ روایت نظر انداز کرکے گزشتہ حکومتوں کی روش برقرار رکھی گئی۔ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے قرآن و سنت سے متصادم قانون سازی کئی گئی، بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے صدارتی آرڈی نینسز کی فیکٹری کھول دی گئی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شہہ پر اسلام دشمن، ملک دشمن اور عوام دشمن  ناقص قانون سازی کے ذریعے عوام کے منتخب نمائندوں اور قانون سازی کے لیے منتخب آئینی فورم پارلیمنٹ کی بے توقیری کرکے اِسے عضو معطل بنادیا گیا۔ عمران خان کے گزشتہ چار سالہ دورِ حکومت کا جائزہ لیا جائے تو یہی تصویر سامنے آتی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اور ادارے بے وقار اور عوام ذلیل و خوار۔
کابینہ اور بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران عمران خان صاحب اب تک چار وزرائے خزانہ اور چھے چیئرمین ایف بی آر تبدیل کرچکے۔ کابینہ میں ردو بدل اور اضافہ کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہا۔  یہی طرزِ عمل وفاق اور پنجاب بیورو کریسی میں مسلسل تبادلوں کا رہا۔ صرف تین سال کے دوران پنجاب میں پانچ چیف سیکرٹری اور سات آئی جیز تبدیل کیے گئے۔ وفاق میں حکومت سنبھالنے سے پہلے عمران خان بار بار کہتے رہے کہ وہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کردیں گے، اور اس کے لیے وہ خیبرپختونخوا کی مثالیں دیتے رہے،  جہاں اُن کے بقول پولیس سیاسی اثر سے بالکل آزاد خالصتاً میرٹ پر کام کررہی ہے۔ لیکن گزشتہ چار سال کے دوران اسلام آباد میں چار آئی جیز تبدیل کیے گئے۔ خود سپریم کورٹ اُن کے اس طرزِ عمل کو سیاسی مداخلت کی بدترین مثال قرار دے چکی ہے۔ یہ بیڈ گورننس کی واضح  مثالیں ہے۔
مذکورہ بالا اور ان جیسے متعدد اقدامات کے ذریعے عمران خان کی زیر قیادت حکومت نے انتخابی جلسوں، جلوسوں میں ریاستِ مدینہ کے بابرکت نظام کے قیام کے حوالے  سے عوام سے کیے گئے تمام وعدوں اور یقین دہانیوں سے عملاً انحراف کرکے اسلام دشمن، ملک دشمن اور عوام دشمن ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ ملکی سیاست میں غیر اسلامی، بدتہذیبی اور لادینیت پر مبنی کلچر کا فروغ، گالم گلوچ، غرور، تکبر، اناپرستی، انتقام، جھوٹ، عہد شکنی، ڈرانا دھمکانا، عدم تعاون وغیرہ وہ غیراسلامی اور غیرانسانی اسلوب اور طرزِ ہائے عمل ہیں جن کا فروغ اوررواج عمران خان ہی کے مرہونِ منت ہے۔ 
عمران خان سرکار کے چار سال عوام کے لیے معاشی بدحالی، تباہی، مہنگائی کا سونامی، ملکی قرضوں کے بوجھ، معیارِ زندگی کی گراوٹ، اشیائے خورد و نوش اور اشیائے ضروریہ کی مسلسل گرانی کا ایک بھیانک باب ثابت ہوئے۔ اقتصادی تباہ حالی ، سود، قرضوں، کرپشن، رشوت، بدانتظامی، بجلی، گیس، پٹرول، آٹا،چینی، خوردنی تیل، پٹرولیم مصنوعات، کھاد، ادویات وغیرہ کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر، ہر بڑے معاشی بحران کے پیچھے خود حکومتی وزراء، چینی کے مصنوعی بحران کے ذریعے حکومتی وزراء سمیت چینی مافیا کا عوام کی جیبوں پر 184ارب روپے کا ڈاکہ، آٹا مافیا نے 220ارب روپے لوٹے۔ مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ کے باعث معاشی ترقی کی رفتار منفی ہوگئی، جوکہ 1951-52 کے منفی گروتھ ریٹ کے بعد پاکستانی معیشت کی بدترین معاشی حالت کی نشاندہی ہے۔
بدترین طرز حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کی بدولت پاکستان عملاً عالمی ساہوکارمالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا غلام بن کر رہ گیا۔ ملکی اثاثے (موٹر ویز، ایئرپورٹس وغیرہ) اِن عالمی ساہوکار اداروں کے ہاں رہن رکھ دیے گئے۔ اس طرح  پاکستان کی معیشت ہی نہیں بلکہ اِس کی سلامتی، سا  لمیت، خود مختاری، آزادی اور دفاعی صلاحیت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گِروی رکھ دیے گئے۔ عالمی دباؤ پر سٹیٹ بنک کو عملاً عالمی مالیاتی اداروں کی تحویل میں دے دیاگیاہے۔ ’’سٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروس کارپوریشن آرڈیننس 2001 (ترمیمی) بل‘‘ کے ذریعے گورنر سٹیٹ بنک کو تمام مالیاتی اُمور میں حکومتی اجازت سے استثنیٰ دے دیا گیا۔ یوں حکومت نے گورنر سٹیٹ بنک کی تقرری،احتساب، تنزلی، کارکردگی روپے کی قدر اور بنک کی مالیاتی پالیسیوں کے سلسلہ میں حکومتی عملداری سے دست برداری پر مبنی قانون سازی کرکے خود اپنے ہاتھ کا ٹ کر عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کردیئے ہیں۔ اب سٹیٹ بنک محض نام کی حد تک سٹیٹ بنک آف پاکستان ہے۔ کچھ عرصہ قبل آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضہ کی قسط حاصل کرنے کے لیے منی بجٹ پیش کیاگیا۔ جس کے ذریعے پہلے سے زندہ درگور عوام پر 360ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کابوجھ لاددیا گیا۔ عمران خان نے صرف تین سال کے دوران  مجموعی ملکی قرضوں میں 52 فیصد ریکارڈ اضافہ کیا۔
غربت کے ہاتھوں مجبور عوام اپنے معصوم بچوں/بچیوں کو دریا برد کرنے یا بیچنے اور خودکشیاں کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ سٹریٹ کرائم اور دیگر جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات کے لیے فکر مند عوام اب آٹا، چینی، گھی، پٹرول، بجلی، گیس جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے سرگرداں۔ کمر توڑ مہنگائی کے باعث تنخواہ دار طبقہ اور محنت کش مزدور طبقہ دربدر۔
آئی ایم ایف کی تابعداری میں آئے روز عوام پر مہنگائی بم گراکر ’’گھبرانا نہیں‘‘ کی رِٹ نے عوام کو ذہنی اور نفسیاتی مریض بناکر رکھ دیا اور وہ دن رات اس ظالم حکومت سے نجات کی دعائیں مانگنے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں پر حد سے زیادہ ظلم کرنے والے کو نہیں بخشتا۔ سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول آج بھی سچ ثابت ہورہا ہے کہ ’’کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم اور جبر کی نہیں۔‘‘ ظلم کیا ہے؟ کسی شے  کو اپنے محل (جگہ) سے ہٹادینے کا نام ظلم ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی اس حوالے سے واضح ہدایات اور رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ حاکمِ وقت کو کن کن اوصافِ حمیدہ کا حامل ہونا چاہیے۔  

مصنف کے بارے میں