پی ٹی آئی حکومت کے چار سال

پی ٹی آئی حکومت کے چار سال

پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں 13مرتبہ تاریخی اضافہ اضافہ کیا گیا ۔ ستمبر 2020ء میں وفاقی کابینہ کی جانب سے جان بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں 510 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ ایک ماہ بعد اکتوبر 2020ء میں حکومت نے ادویات کی قیمتوں میں مزید 22 تا 35 فیصد اضافہ کرکے مجموعی طور پر 253 ادویات کی قیمتیں بڑھائیں۔ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کرونا وائرس (کووڈ 19)کے امدادی فنڈ کی مد میں ملنی والی فنڈ کی رقم میں سے 300ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی۔
اِس ساری صورتِ حال میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مارے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے سرکاری خزانے سے بھاری بھرکم تنخواہیں اور مراعات لینے والے ’’وزرائے کرام‘‘عوام کو روٹی، چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کا استعمال کم کرنے کا مشورہ دینے لگے۔ عوام کو باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کے لیے روزگار اور کاروبار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی بجائے انہیں لنگر خانوں کا محتاج بنادیا گیا۔ 
پاکستانی کرنسی کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلہ میں خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان، انڈیا، جاپان، ملائیشیا، مالدیپ، نیپال، فلپائن، تائیوان، تاجکستان، ترکمانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک سے بہت کم رہی۔ حتیٰ کہ تین دہائیوں تک بیرونی جارحیت اور جنگی تباہ کاریوں کا سامنا کرنے والے اور اِس وقت شدید مالی بحران کے شکار افغانستان کے مقابلے میں بھی پاکستانی روپیہ کمزور۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 87 افغانی کے لگ بھگ ، جبکہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر 181 روپے سے زیادہ ہے۔
حکومت خود دعویٰ کرتی ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی بجلی ہماری مجموعی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ملک میں توانائی بحران جاری ہے۔ بجلی و گیس سیکٹرز کے گردشی قرضے تاریخ کی  بلند ترین سطح کو چھورہے ہیں۔ 2018ء میں بجلی کے گردشی قرضے 1148 ارب تھے ، جو اس وقت بڑھ کر 2400 ارب روپے تک جاپہنچے ہیں۔ یہی صورتِ حال گیس کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کا ہے۔ ایک معاہدے کے تحت آئی پی پیز کو عوام سے 350ارب روپے لوٹنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ جبکہ عوام کے لیے 3پیسے کی چھوٹ بھی نہیں۔
آئی ایم ایف کیساتھ طے شدہ شرائط کے تحت  بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل ناجائز اضافہ حکومت کی طرف سے عوام پر خودکش حملوں کے مترادف ہے۔اِسی طرح حکومت نے قطر سے ایل این جی معاہدے میں تاخیر کرکے مہنگے داموں خریداری کی، اس طرح آٹا، چینی، پٹرول سکینڈلز کی طرح ایل این جی سکینڈل میں بھی 100ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی۔ 
عمران خان ایک طرف وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف سٹیٹ بنک کے موجودہ گورنر رضا باقر صاحب کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت 25 لاکھ ماہانہ تنخواہ اور کم و بیش اتنی ہی ماہانہ دیگر مراعات پر مقرر کیا۔ انتخابی جلسوں میں گزشتہ حکمرانوں کی عیاشیوں کا حوالہ دے کر غیر ترقیاتی حکومتی اخراجات میں کمی لانے اور اور کم سے کم کابینہ رکھنے کے دعویدار عمران خان تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کے ساتھ حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اپنے ہر وعدے اور دعوے سے یوٹرن عمران خان کی پہچان بن کر رہ گیا ہے۔ عمران خان کی یہ دوغلی پالیسی عوام کے ساتھ کھلا دھوکہ اور فریب ہے۔ سودی معیشت، آئی ایم ایف کی غلامی، منی بجٹ، سٹیٹ بنک کی خود مختاری کے نام پر اسے آئی ایم ایف کی تحویل میں دینے اور بدترین مہنگائی کے خلاف جماعتِ اسلامی نے سینٹ آف پاکستان اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مسلسل آواز اٹھائی۔ محترم امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق کی ہدایت پر ملک بھر میں 101 دھرنوں کا شیڈول جاری کیا گیا، جوکہ کامیابی سے جاری ہے۔ ان دھرنوں کو عوامی سطح پر ملنے والی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام موجودہ حکومت سے نالاں ہے اور وہ نئے مینڈیٹ کے تحت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس وقت مجموعی قومی قرضہ 56ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔  127ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے کیساتھ مجموعی قرضے جی ڈی پی 93  فیصد سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں اِن قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 30035 ارب روپے اکٹھا کرنے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں منی بجٹ کی منظوری اور سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے نام پر بل کی منظوری میں حکومت کے ساتھ مل کر عوام کا خون نچوڑنے میں برابر کی شریک رہیں۔مختصر یہ کہ ملکی معیشت کی گاڑی اناڑی ڈرائیور کے ہاتھ آگئی ہے جو اِسے  ڈھلوان سے  نیچے کی طرف لے جارہے ہیں اور بدقسمتی سے اس گاڑی کی بریکیں بھی فیل ہوگئی ہیں۔
جلسے جلوسوں میں عوام کے سامنے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ افراد کا محاسبہ جیسے پُرفریب نعرے لگانے والی عمران سرکار خود کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن کے لحاظ سے 117 ویں نمبر سے ترقی کرکے 140 ویں نمبر پر آگیا۔ حسبِ دستور کرپشن کی روک تھام میں انٹی کرپشن،نیب، ایف بی آر، پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں سمیت تمام ادارے مکمل طور پر ناکام رہے۔ پی ٹی آئی وزراء اور اُن کے رشتہ دار کھلے عام سرکاری نوکریوں کے بدلے عوام سے رشوت لیتے ہوئے نظر آئے۔ بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ دورِ حکومت  میں کرپشن بڑھ کر 30 فیصد ہوگئی۔
برسرِ اقتدار آنے سے پہلے عمران خان نے عوام سے یہ بھی وعدہ کیاتھا کہ وہ بیرونِ ملک بنکوں میں رکھی گئی  ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان میں واپس لے کر آئیں گے۔ 200 یا 300 ارب ڈالر ملک میں واپس آئیں گے تو ملک کی معاشی تقدیر بدل کر رکھ دوں گا۔ لیکن آج چار سال گزرنے کے باوجود مذکورہ رقم کا ایک ڈالر بھی قومی خزانے میں واپس نہیں آیا۔ بلکہ جس شخص کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی ، یعنی شہزاد اکبر صاحب، اُسی کو یہ کہہ کر عہدے سے ہٹادیا گیا کہ وہ احتساب کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کرسکے۔ اب تو براڈشیٹ کے سربراہ کاوے موسوی نے بھی کہہ دیا کہ پاکستانی سیاستدانوں کی لوٹی ہوئی رقم برآمد کرنے کے لیے پاکستانی حکومت نے جو ذمہ داری سونپی تھی وہ سب قومی احتساب بیورو (نیب) کے تحت ایک فراڈ تھا۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نام پر سرکاری خزانے سے 65 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم خرچ کرکے ناکامی کا اعتراف ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پانامہ لیکس کے ذریعے 436اور پنڈورا لیکس کے ذریعے 700سے زائد کرپٹ پاکستانیوں کے نام منظرِ عام پر آنے کے باجود کوئی کارروائی نہ ہونا بھی اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ ’’احتساب سب کا‘‘ نعرے کے حوالے سے عمران خان صاحب کتنے مخلص اور سنجیدہ تھے۔ سوئس بنک اکاؤنٹس لیکس کے ذریعے 1400 پاکستانیوں کے نام بھی منظرِ عام پر آئے لیکن ان افراد کے خلاف حکومت نیب یا کسی دیگر ادارے نے تاحال کوئی کاروائی نہیں کی۔ اس طرح قومی مطالبہ ’’احتساب سب کا‘‘ ملیامیٹ، کرپٹ مافیا کی سرپرستی، ملک میں کرپشن اور رشوت کی رفتار تیزتر ہوتی چلی گئی۔
خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی عمران خان عدم حکمت اور غیرسفارتی طرزِ عمل کے باعث تنہائی کا شکار ہیں۔ ہر ظالم ملک کی طرفداری،کشمیر اور افغانستان کے محاذوں پر بزدلی اور کنارہ کشی ، قومی کشمیر پالیسی پر پسپائی اور معذرت خواہانہ رویہ، افغانستان میں افغان عوام اور طالبان کی نیٹو فورسز اور امریکی جارحیت کے خلاف تین عشروں پر مشتمل صبر آزما اور قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں تاریخی کامیابی کے بعد حکومت کے قیام کے بعد انہیں تسلیم کیے جانے کے حوالے سے تذبذب اور غیریقینی صورتِ حال سے دوچار ہونا ہماری خارجہ پالیسی کی واضح ناکامیاں ہیں۔  

مصنف کے بارے میں