پون صدی کا قصہ ہے

پون صدی کا قصہ ہے

وطن عزیز کے وہ ’’باشعور لوگ اور دانشور‘‘ جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ 1992 سے شروع ہوتی ہے کے لیے جناب امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ کیونکہ انہوں نے نصف صدی کی بات کی تب نصف صدی ہوئی ہو گی۔ اب پون صدی گزر چکی
’’پون‘‘ صدی ہونے کو آئی
میرا گھر میری بستی
ظلم کی آندھی میں جل جل راکھ
میں ڈھلتے جاتے ہیں
میرے لوگ اور میرے بچے
خوابوں اور سرابوں کے اِک جال میں
اُلجھے
کٹتے، مرتے جاتے ہیں
چاروں جانب لہو کی دلدل ہے…
اور حفیظ جالندھری سے معذرت!
تخریب و تکذیب کے ضمن میں جو بھی کسی کا حصہ ہے
’’پون‘‘ صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
مذہب کے نام پر سیاست کرنا اور قوم کو جذباتی کیفیت میں مبتلا کر کے جب مقاصد ذاتی اور سیاسی ہوں تو پھر ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ (مفہوم فرمان سرکارؐ)
جب نیت سیاست مفاد، منافقت جھوٹ کے پروان چڑھانے اور نفاق پیدا کرنے، اقتدار کے حصول یا طوالت اقتدار یا مخالفین کو اقتدار سے محروم کرنا ہو تو پھر اس تکذیب کی کہانی کے کردار مذہب کو اپنی سیاست اور حیثیت یا مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے والے اپنے چہروں سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
ابھی حالیہ دنوں شیخ رشید، جو چار نمبر بس لاہور کے بجائے پنڈی کے چار نمبر گیٹ کے مسافر ہیں، کی پنجاب کو رینجرز کے سپرد کرتے ہوئے الفاظ، باڈی لینگویج، آنکھوں اور ہونٹوں کی حرکیت کا آپس میں میل نہیں تھا اس کی واحد وجہ اندر کا خوف اور اس کا اپنا ماضی تھا۔ جس حوالہ سے اس کی شعلہ بیانیاں یوٹیوب پر موجود ہیں۔ جن سے انکار ممکن نہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمیں ایک طائرانہ نظر ماضی پر ڈالنا ہو گی۔ جس میں 1953 کے واقعات ایوب خان کا کہنا کہ ملک اسلام کے نام پر حاصل ہوا، کھاؤ پیو ہنسو اور سکھی رہنا ہی نظریہ پاکستان ہے پھر محترمہ مادر ملت فاطمہ جناح کے لیے کہنا اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں۔ یکدم ان کا نظریہ پاکستان 
اسلامی ہو گیا۔ یہی صورت حال مولانا فضل الرحمن کی بی بی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے حوالے سے رہی، جن کو ضیا کے دور میں مردانہ جیل میں بند کیا گیا۔ جبکہ مریم نواز کے لیے اس موضوع پر آئین کی بالادستی کی بات کر دی، جب چاہا سیاسی مقاصد کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک کا حصہ بن گئے اور جب چاہا عورت کی حکمرانی میں مذہب کو سامنے لے آئے جب چاہا مریم کو باپ کے سامنے گرفتار کر لیا اور جب چاہے موقف بدل دیا۔
گریٹ بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک کو نظام مصطفی کی تحریک کا نام دیا گیا اور مقاصد صرف اقتدار سے ہٹانا تھا جب نظام مصطفی سے منافقت کی گئی تو قدرت نے ایک جابر گیارہ سال کے لیے مسلط کر دیا۔ جس کا بویا ہوا اب تک کاٹ رہے ہیں۔ علمائے کرام نوازشریف کو اقتدار بچانے کے وظائف بھی بتاتے رہے عمران خان کے لیے اوپر، نیچے، دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے اللہ سے مدد بھی مانگتے رہے۔ کچھ تو عمرہ کی سعادت میں شریک عمرہ بھی پائے گئے۔ وطن عزیز میں سیاسی تحاریک ایوب خان کے خلاف، ضیاء الحق کے خلاف اور جزوی طور پر مشرف کے خلاف چلائی گئیں جبکہ بیشتر تحریکیں مذہب کے نام پر چلیں۔
لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بڑھ کر کیا جرم ہو گا۔
موجودہ دور میں گناہ گاروں کا آخری سہارا عشق رسول، غلامی رسولﷺ کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ آقا کریم ﷺ کی غلامی اور عشق کے ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں نہ ہی محض اس کے دعوے کی بنیاد پر ہی اس کے معیار عشق کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
آقا کریمﷺ کے اہل بیت، صحابہ اجمعین سے آج تک عشاق رسول اور غلامان رسول کے لیے انسانوں کے سمندر کا شمار ممکن نہیں مگر صد افسوس کہ موجودہ حکومت اور اسی طرح اس کے مخالفین (سیاسی کے علاوہ) لوگوں نے دین، مذہب سے ہٹ کر عشق رسولؐ کو استعمال کیا، یہ لمحہ ٔ فکریہ ہے۔
عشق رسولؐ کے حوالے سے عشاق رسول کی تشویش سے کون واقف نہیں کہ ان کے احساسات اور جذبات پر آج کے دور میں سیاست شروع کر دی گئی۔ اسلام کے حوالے سے دولتانہ نے خواجہ ناظم الدین اور ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جبکہ مولانا مودودیؒ فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے تھے۔ ایوب خان کے خلاف سیاسی تحریک کے بعد سیاست میں عوامی حمایت سے محروم عناصر پھر مذہب کی طرف لوٹ آئے۔ گریٹ بھٹو کے خلاف نظام مصطفی، بی بی شہید کے خلاف بھی مذہب کارڈ کا استعمال ہوا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر سکیورٹی رسک قرار دیا گیا دراصل آج کی دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ بارود اتنا ہے جو دنیا کو کئی بار تباہ کر سکتا ہے اب سیاست کے لیے اتنا بارود تو استعمال نہیں ہو سکتا لہٰذا انسان ہی بم اور بارود بن گئے۔ مسجدیں، مزار، امام بارگاہیں، دکانیں، گلیاں، بازار خود کش حملوں بم دھماکوں کا میدان بن گئے اور تو اور بدھ مت جو اخلاقیات کا مذہب بنا دیا گیا تھا۔ مہاتما بدھ کے افکار جو صرف اخلاقیات اور انسانیت کے حوالے سے تھے، بدھست تشدد پسند ہو گئے۔ برما اور دیگر علاقوں میں وہ انسان سوز تاریخ رقم کی کہ نازی تاتاری معصوم لگنے لگے۔ مگر میرے بے بس ہم وطنو، پریشان نہ ہو، مذہب کارڈ، حب الوطنی، ملک دشمنی کارڈ، غدار اور فخرِ وطن کارڈ حکومتی اداروں، حکومتوں، سیاسی و مذہبی جماعتوں، ایجنسیوں نے اپنے مفادات کے لیے ہمیشہ ببانگ دُہل بے دریغ اور ڈھٹائی، منافقت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ایجنسیوں اور رینجرز کے سول معاملات میں مدد لینے کے لیے اخراجات، وطن عزیز کی سیاسی، سماجی، عسکری تاریخ سے آگاہی حاصل کرنا ہو تو محمد بلال غوری دانشور، کالم نگار کے یو ٹیوب پر وی لاگ دیکھئے۔ آج کی صورت حال میں اطمینان ہو جائے گا۔ معاہدہ بھی ہو گیا، حربی قوتوں اور عسکری ونگ والی جماعتوں کو سیاسی جماعت کا درجہ بھی مل جائے گا۔  مگر قوم کے کھربوں روپے ضائع ہوئے، شہیدوں اور مقتولین، زخمیوں اور مضروبین کا کیا ہو گا؟ ذہنی دباؤ ، اعصابی کھچاؤ اور جگ ہنسائی کا کیا ہوا؟؟؟پی ڈی ایم کا کامیاب پاور شو، حکومت کے کاروبار میں شامل لوگوں کا اپوزیشن کی زبان بولنا حتیٰ کہ گورنر پنجاب کی باتیں لگتا ہے زبان شہباز شریف یا بلاول بھٹو کی ہے مگر چہرہ گورنر پنجاب کا ہے جو عدالتی نظام اور دیگرنظام ہائے مملکت اور دیگر کاروبار حکومت سے مطمئن نہیں، جلد نتائج سامنے ہوں گے۔
جب تک قانون، پارلیمنٹ، آئین کی حقیقی حکمرانی نہیں ہو گی، جعلی سندوں والے وکلا، ڈاکٹر، جج اور موقر اداروں کے نمائندے اور صدور بنتے رہیں گے۔ حالات درست نہیں ہوں گے۔ ہمارے ہاں واقعات پہلے اسباب بعد میں پتہ چلتے ہیں۔ حالیہ صورت حال اپنے نتائج سے اسباب کا پتہ دے گی۔
گھبرانا نہیں!
یہ پون صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔