سرمایہ داروں کی مکارانہ چالیں

سرمایہ داروں کی مکارانہ چالیں

 آج ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ جہازی سائز کی کابینہ رکھنے والے وزیر اعظم شہباز شریف کشکول لیے آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ پشیمانی یا ملال کا کوئی تاثر دیکھنے میں آیا ہو۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا یہ حال ہے کہ کھیلن کو مانگے چاند۔ شریف خاندان ہو، زرداری فیملی ہو یا جہانگیر ترین یا دیگر سیاستدان،یہ سیاسی وجود کے ساتھ ساتھ ایک سرمایہ دارانہ وجوو بھی رکھتے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پر بھی براجمان ہیں اورملک کی اہم صنعتوں پر بھی اپنا گہرا رسُوخ رکھتے ہیں۔ یہ گدی نشین بھی ہیں اور ججوں، جرنیلوں اور میڈیا ٹائیکون کے ساتھ رشتہ داریاں بھی بناتے ہیں۔ پاکستان اور دنیا میں سرمایہ داروں کا تسلط اس قدر گہرا ہو گیا ہے کہ معیشت تو معیشت اب تو جمہوریت اور سیاست بھی سرمایہ دارانہ ہوگئی ہے۔ایک وقت تھا کہ سرمایہ صنعت میں لگتا اور ملک میں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوتے۔ لیکن اب سرمایہ زمین اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لگنے لگا جس سے روزگار کے مواقع کم ہوتے گئے اور امیر،امیر ترین۔ 
بات سیاسی شخصیات کے سرمایہ دارانہ وجود سے چلی اور پرائیویٹ سوسائٹیوں کی جانب جانکلی۔ سرمایہ داروں کی چالیں کس سے پوشیدہ ہیں؟  یہ مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کی طلب کے لحاظ سے پیداوار نہیں کرتے بلکہ ناجائز قیمتوں کو برقرار  رکھنے کے لیے پیداوار یا سپلائی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایف بی آر کی کمیٹیوں میں بھی شامل ہوتے ہیں اور اپنے کاروبار کے لئے مراعات اور آسانیاں حاصل کرتے ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتوں کی مالی معاونت کیا کرتے تھے اب مالی معاونت کے ساتھ ساتھ خود بھی سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر ملک و قوم کی ”خدمت“ کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ سرمایہ داروں نے کیسے قومی خزانے کو لوٹا اور بنکوں کو دیوالیہ کیا، اس حوالے سے اپنے چند تجربات پیش کرنا چاہوں گا کہ راقم تقریباً بتیس سال نجی کمپنیوں میں ملازمت کا تجربہ رکھتا ہے۔ 
کراچی میں ایک سیمنٹ فیکٹر ی تھی جس کی مشینری چند سال قبل زنگ آلود ہوکر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئی ۔ نوے کی دہائی میں اس فیکٹری کا عروج تھا۔ این ڈی ایف سی کے نام سے ایک بنک بھی ہوا کرتا تھا جسے برباد کرنے میں مذکورہ کمپنی سرِ فہرست تھی۔ا س میں شک نہیں کہ اس سیمنٹ کمپنی نے اپنے ملازمین کو حد درجہ سہولیات دیں، لیکن اس وقت تک جب تک کہ بنکوں کا سارا سرمایہ اپنی جیب میں منتقل نہیں کرلیا۔ طریقہ یہ تھا کہ سیمنٹ  ڈیلروں کے کمیشن کے نام پر ظاہر کی جانے والی رقوم سیٹھ کی ذاتی جیب میں جاتیں، ہزار کی چیز خریدی جاتی اور بل کئی گنا زیادہ کا بنوایا جاتا۔ ایسے لوگ بھی تھے جو 6x6 کا دفتر رکھتے، کاغذات میں کروڑوں کا کام کرتے اور سیٹھوں کو خام مال کی سپلائی کے جعلی بل بنا کر دیا کرتے تھے۔ سیٹھ صاحب کرتے یہ کہ کبھی سٹیٹ بنک کے سابق گورنر کو اہم عہدے پر اپنے یہاں ملازمت دے دیتے یا پھر کسی طاقتور ادارے سے ریٹائر ہونے والی شخصیت کو۔  اِن کے ذریعے بنک کی قرض کی اقساط مؤخر کراتے رہتے اور جب واجب الادا رقم حد سے بڑھ جاتی تو ری شیڈول کی درخواست دے دیتے اور پھر ایک دو اقساط دے کر، اقساط مؤخر کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا۔سارے سال کی کاروباری سرگرمی کے اکاؤنٹ آڈٹ کے لیے دوبارہ بنتے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آڈٹ وہ کمپنی کرتی جس کا شمار ملک کی دو یا تین بڑی آڈٹ کمپنیوں میں ہوتا تھا۔ آخر میں جب سیکڑوں لوگوں کی سالہا سال کی تنخواہیں اور ان کی گریجویٹی کی رقوم واجب الادا ہوگئیں تو کمپنی دیوالیہ قرار دے کر بند کردی گئی۔ کئی لوگ صدمے سے جان سے گئے اور جو زندہ رہے وہ درگور۔  
اسی طرح ایک اور فیکٹری ہے، جس کا ابتدائی پلانٹ 1994-95 ء میں سات ارب روپے کی لاگت سے لگا اور آج اس کا ایک سال کا ظاہر کردہ منافع بارہ یا تیرہ ارب ہوتا ہے جب کہ اصل اور پوشیدہ منافع اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ملازمین پر سختی کا یہ عالم تھا کہ لاہور کی سخت ترین سردی میں 20x12 کے کمرے میں سنگل راڈ کا بجلی کا ہیٹر استعمال کرنے کی اجازت تھی۔جس سے سردی کیا کم ہوتی صرف سیگریٹ ہی سلگائی جاسکتی تھی۔ ملازمین کو بنک میں رقوم جمع کرانے کے لیے دفتر کی کاریں ہونے کے باوجود ویگن کے استعمال کی ہدایت تھی اور رقم گُم ہونے کی صورت میں تنخواہ سے وصول کیے جانے کی دھمکی۔ ناکارہ مشینری مُرمت کی غرض سے بیرون ملک بھیجی جاتی اور پرانی مشینری کے نمبرنئی مشین پر ٹیمپر کرکے ثبت کر دیئے جاتے اور نئی مشینری پرانی کے نام پر درآمد کرکے ڈیوٹی کی مد میں کروڑوں روپے بچائے جاتے۔ سات ارب کے ابتدائی سرمایے سے لگنے والی کمپنی نے دن دگنی رات چوگنی ”ترقی“ کی اور آج تعمیرات کے شعبے کی خوش قسمت کمپنی کے طور پر جانی جاتی ہے۔   
تقریباََ بیس سال قبل لاہور میں ایک صاحب سے ملنے گیا جو ایلوپیتھی کی دواؤں کا کاروبارکرتے تھے اور کچھ عرصہ پہلے تک ایک مذہبی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے تھے۔ان سے ملاقات کے وقت میرے ہاتھوں میں شیر جنگ صاحب کی کتاب ”کارل مارکس اور اس کی تعلیمات“ اور علی عباس جلالپوری کی ”فکری مغالطے “ تھیں۔ کچھ باتیں کرنے کے بعد کتابیں دیکھتے ہوئے بولے کہ آپ مارکس کے بارے میں پڑھتے ہیں اور کس نے یہ کتابیں تجویز کی ہیں؟ اور ساتھ ہی مارکس کی فکر پر تنقید شروع کردی جس میں علمی دلائل کم اور سرمایہ دارانہ تعصب زیادہ تھا۔ میں نے بتایا کہ ڈاکٹر الطاف جاوید صاحب نے۔ او ہو!، آپ ان سے ملتے ہیں؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل ہے اور بہت سچے نیک اور اپنے نظریات سے مخلص شخصیت ہیں۔تو فرمانے لگے ہاں ہیں تو نیک لیکن کیمونسٹ ہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ کارل مارکس کی فکر کے اس حصے جو سرمایہ داری نظام کے استحصال سے متعلق ہے سے تو وہ متفق ہیں لیکن مارکس کے مذہبی نظریات سے وہ اتفاق نہیں کرتے اور ان کی کتاب”سوویت یونین کا زوال اور اسلام“ آپ کی غلط فہمی دور کردے گی۔ اسی دوران ان کے دفتر ایک فرد  دواؤں کی فروخت کا بل لے کر آیا جس پر ان کے دست خط درکار تھے۔ پہلے انہوں نے اپنے ملازم کو کہا کہ انوئس دینے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب انھیں میری موجودگی کا احساس ہوا تو کہا کہ ”اگر وہ انوائس مانگیں تو پھر دے دینا“۔  
یہ ہیں فقط  چند مثالیں سرمایہ داروں کے مکروفریب کی۔اقبال ؔنے اسی لیے تو کہا تھا کہ: 
مَکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار