آئی ایم ایف سے کہہ دیا ہاتھ ہولا رکھیں، عوام پہلے ہی سڑکوں پر ہیں: وزیر خزانہ

آئی ایم ایف سے کہہ دیا ہاتھ ہولا رکھیں، عوام پہلے ہی سڑکوں پر ہیں: وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) سے کہہ دیا ہاتھ ہولا رکھیں، عوام پہلے ہی سڑکوں پر ہیں، نئی صنعتیں لگانے کیلئے 5 سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے تاہم بینک ڈیفالٹر ایمنسٹی سکیم میں حصہ نہیں لے سکتے، پیٹرولیم مصنوعات پر 39 ارب کا ریلیف دے رہے ہیں۔ 
پریس کانفرنس کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کی جنگ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں مگر حکومت نے پیٹرولیم لیوی کو کم کیا اور سیلز ٹیکس صفر کر دیا ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ماہانہ 104 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں جبکہ اس پیکیج کے اعلان سے پہلے بھی 78 ارب روپے کی سبسڈی دی جا رہی تھی۔ 
انہوں نے کہا کہ ہر 15 دن بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عوام کو ریلیف دیا جا رہا ہے جبکہ بجلی کیلئے آئندہ چار ماہ میں 136 ارب روپے کا ریلیف دیا ہے جس کے تحت 700 یونٹس والے بجلی صارفین کو 5 روپے فی یونٹ سبسڈی ملے گی اور اس کے علاوہ مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہوئی ہے۔ 
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے صنعتوں کی بحالی کیلئے پیکیج دیدیا جس کے تحت نئی صنعتیں لگانے کیلئے پانچ سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی تاہم بینک ڈیفالٹر ایمنسٹی سکیم میں حصہ نہیں لے سکتے، اس کے علاوہ آئی ٹی برآمدات کیلئے فری لانسرز کو بھی مراعات دی گئی ہیں۔ صنعتی شعبے کیلئے ایمنسٹی سکیم حکومت کا بہت بڑا قدم ہے اور صنعت نے اس پر لبیک کہا ہے۔ 
شوکت ترین نے کہا کہ ایک ماہ میں مہنگائی کی شرح میں 2 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے، عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ کے اثرات کو اگر سی پی آئی سے نکال دیں تو مقامی سطح پر مہنگائی کنٹرول میں ہے، کل امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی کہا کہ مہنگائی برداشت کرنا ہو گی، پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بھی نہیں بہہ رہیں لیکن بہتری ضرور آئی ہے۔ 
وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور ان کیساتھ ریلیف پیکیجز پر بات کی ہے، اس معاملے پر آئی ایم ایف کیساتھ جتنی بات کرنی چاہئے تھی اتنی ہی کی ہے اور اسے ریلیف پیکیجز پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس مقصد کیلئے کوئی اضافی رقم نہیں لی گئی۔ آئی ایم ایف کو یہ ضرور بتا دیا ہے کہ ہاتھ ہولا رکھیں، لوگ پہلے ہی سڑکوں پر ہیں اور اگر مزید سختی کی گئی تو ٹھیک نہیں ہو گا۔

مصنف کے بارے میں