سیاسی درجہ حرارت گرم

سیاسی درجہ حرارت گرم

آسماں بدلتا ہے رنگ کیسے کیسے؟ ہر عمل کا مکافات عمل ہوتا ہے،جیسی کرنی ویسی بھرنی یہ وہ جملے ہیں جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔ یہ جملے نا صرف سنے ہیں بلکہ ان کی حقیقت بھی دیکھی ہوئی ہے۔انسان جب عروج پر ہوتا ہے تو زوال کو بھول جاتا ہے جبکہ اس حقیقت سے انکار نہیںکہ عروج کو ہی زوال آتا ہے۔ بڑے بڑے محلوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا ہے۔ دنیا کے ناخداؤں کو زمین میں دفن ہوتے بھی دیکھا ہے مگر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو بیجا ہے وہی کاٹنا پڑتا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ اگرہم انسان ہیں تو پھر ہماری انسانیت کیا کہتی ہے اور اگر ہم اللہ کے بندے ہیں تو پھر ہمارے رب کا کیا فرمان ہے ؟ 
آج کل ملکی سیاسی درجہ حرارت کافی گرم ہے۔ کہیںپر اپوزیشن عوامی مارچ کررہی ہے تو کہیں پر حکومتی لوگ جلسے جلوس کررہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں عوام کو پاگل بنایا ہوا ہے۔ اگر میں ماضی قریب میں جاؤ ں میں تو چند سال پہلے ایسے ہی منتخب حکومت کے خلاف موجودہ حکومت نے دھرنا دیا تھا۔ اس وقت بھی کسی سیاستدان کو نقصان نہیں ہوا تھا اگر نقصان ہوا تھا تو وہ عوام کااور ملک کا ہوا تھا۔چہرے بدلے تھے نظام نہیں بدلا۔ پرانے چہرے تھے مگر نئی سرجری کراکے دوبارہ ہم پر مسلط ہوگئے۔ عوام کے ذہن میں وہ سب باتیں موجود ہیں جو کچھ انہوں نے ماضی میں دیکھا ۔ کئی پروگرام میں بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھائے مگرمجھے سارا کچھ بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھ سے پہلے میرے بہت سے کالمسٹ بھائیوں اور تجزیہ نگاروں نے وہ چیزیں عوام کے سامنے رکھ دیں ہیں مثلاً خان صاحب نے ماضی میں شیخ صاحب کے بارے میں ، ایم کیوایم کے بارے میں، ق لیگ کے بارے میں کیاکیا فرمایا تھا یا ان وزرا کی لسٹ جو پہلے وہ پی پی یا ن لیگ کے دور حکومت میں بھی وزارت کے مزے لیتے رہے ہیں 
اور اب بھی اسی عزم کے ساتھ موجود ہیں۔یہ تو حکمران جماعت کی تصویر دکھائی ہے مگر اپوزیشن والے بھی ان سے کم نہیں ہیں کیونکہ وہ بھی سیاست دان ہیں وہ حکمرانوں سے پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں ۔ق لیگ جو ن لیگ سے ٹوٹ کربنی تھی آج اتنے عرصے بعد کیسے ایک دوسرے کا خیال آگیا؟ آج کیوں ان کے گھرجانے تک کی نوبت آئی؟ پی پی اور ن لیگ جو ایک دوسرے کے ہمیشہ مخالف تھے اور ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے آج کیوں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے ؟ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں فضل الرحمن کے قریب کیسے پہنچی؟ کیوں چودھری شجاعت خود فضل الرحمن کے گھرچل کر جاتا ہے؟ علیم خان کیوں ترین گروپ میں گیا؟ حکمران جماعت کی ایک اتحادی جماعت کیوں وزیراعظم سے ملنے سے انکار کررہی ہے؟ سوچنا تو بنتا ہے کہ یہ سب کھچڑی کیسے پک گئی؟
بہرحال ابھی اتنی گرمی شروع نہیں ہوئی جتنی گرمی سیاست کے میدان میں آچکی ہے۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پیش ہوچکی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن میں جوڑ توڑ کا مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔ کہیں پر ارکان اسمبلی کے فروخت ہونے کی بازگشت شروع ہوچکی ہے تو کہیں پر بین الاقوامی سازش کا واویلا مچایا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عدم اعتماد پر ایک بار پھر ارکان اسمبلی کی موجیں ہونگی۔ اپوزیشن والے اپنے ارکان کی آؤ بھگت کریں گے اور حکمران والے اپنوں کی۔ وہ پارٹی قائدین جن سے ملنے کے لیے ارکان اسمبلی مہینوں انتظار کیا کرتے تھے اب ایک کال پر آدھی رات کو بھی جی سر کی آواز سنیں گے۔ 
مقابلہ تو اس بار بہت سخت ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کو حکمران جماعت کے 20 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت موجود ہے۔ حکمران جماعت کے ناراض ’’ترین گروپ‘‘ نے مذاکرات کیلئے عثمان بزدار کو ہٹانے کی شرط رکھ دی ہے اور عمران خان اب بھی عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ حکمران جماعت کے کچھ ارکان ناراض بھی ہیں جن سے عمران کو خدشہ ہے کہ ان ووٹ مخالفت میں نہ چلا جائے اسی لیے عمران خان نے ناراض ارکان اسمبلی سے خود بات کرنا شروع کر دی ہے ۔ حکمران جماعت کوا پنے دوسرے اتحادیوں کی طرف سے بھی خدشہ ہے کہیں وہ کلٹی نہ مار جائیں کیونکہ حکمران جماعت کی بنیاد زیادہ مضبو ط نہیں ہے اور اپوزیشن کوصرف 10ووٹ درکار ہیں۔
دوسری طرف حکمران جماعت بھی دعویٰ کررہی ہے کہ اپوزیشن کے ممبرا ن ہمارے رابطے میں ہیں اور عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گی اور پہلے کی طرح اس بار بھی شکست ان کا مقدر بنے گی۔ جس طرح سینٹ کے چیئرمین کے الیکشن سمیت مختلف بلز کو منظور کرایا اسی طرح تحریک عدم اعتماد کو بھی نامنظور کرائیں گے۔
اب تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عدم اعتماد کا کیا نتیجہ نکلتا ہے مگر حکمران جماعت کے حلیف اور حریف اپنی اپنی جیت یقینی ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں ۔اپوزیشن اور حکمران کے عوامی سپورٹر بڑے بڑے تجزیہ نگار بن کر خود ہی ایک دوسرے پر تنقید اور تردید کرتے ہیں اور پھر ان کے تجزیے کا اختتام آپس کے لڑائی جھگڑے پر ہوتا ہے ۔یہ لڑائی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی جان تک لے لیتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ جن کے پیچھے ہم لڑرہے ہیں وہ ایک بار پھر ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں۔سیاست کو سیاستدانوں کی طرح دیکھو دشمنوں کی طرح نہیں۔
 یہاں ایک بات ضرور لکھوں گا کہ عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی نکلے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ایسی حرکتوں سے نقصان ملکی معیشت اور عوام کا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور ہمارے ملک کو سدا قائم و دائم رکھے۔آمین 

مصنف کے بارے میں