رسہ گیروں کی حکومت

رسہ گیروں کی حکومت

بدمعاش حکومت کے خاتمہ کی سرخی  ماضی میں ایک اخبار نے لگائی گئی تھی عمران خان کی حکومت کے خاتمہ پر میں اس عنوان سے کالم لکھنا چاہتا تھا لیکن بوجوہ ایسا نہیں کر سکا کہ میرے پی ٹی آئی کے دوست رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد، جو جمہوری عمل کا ایک حصہ تھا، کو سبوتاژ کرنے کے لیے صریحاً بدمعاشی کی تھی اور جمہوری اور پارلیمانی روایات کا جنازہ نکال دیا تھا۔ آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مرضی کی تشریحات کی جاتی رہیں۔ آج پنجاب اسمبلی میں جس طرح کی بدمعاشی کی گئی اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ رسہ گیروں کو اگر اختیار دے دیا جائے تو اس طرح کے مظاہر ہی ملیں گے۔ پنجاب میں قائد ایوان کے انتخاب میں تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی نے پرویز الٰہی کی قیادت میں ڈپٹی اسپیکر جو اجلاس کی صدارت کر رہے تھے انہیں تھپڑ مارے، ان پر حملہ کر دیا اور وہ بڑی مشکل سے وہاں سے جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
 پرویز الٰہی اور ان کی حلیف جماعت پی ٹی آئی کسی صورت اس انتخاب کو ہونے نہیں دے رہی۔ اس بار لاہور ہائیکورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آ رہا ہے۔ پرویز الٰہی جس کی وضع داری کی مثالیں دی جاتی رہیں، آج ان کا اصل چہرہ بھی دنیا نے دیکھ لیا۔ کیا پرویز الٰہی صرف اس وقت ہی  وضع داری دکھاتے ہیں،جب اقتدار ان کے پاس ہو۔ پولیس پنجاب اسمبلی میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ یقینی طور پر تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ تحریک انصاف اس جمہوریت کا تماشا ساری دنیا میں دکھا رہی ہے تاہم پاکستان کے عوام بھی ان کا اصل چہرہ دیکھ رہے ہیں۔
بدتمیزی اور بد تہذیبی کا عنصر تحریک انصاف کی قیادت سے ہو کر اس کے حامی تک میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ میں مجموعی صورتحال بیان کر رہا ہوں حالانکہ میرے کئی دیرینہ دوست پی ٹی آئی سے ہیں، وہ اس صورتحال پر کڑھتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ استدلال بھی دیتے ہیں کہ مشکل وقت میں وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عمومی طور پر تحریک انصاف کے کسی کارکن سے آپ چند منٹ تک کوئی سلجھی ہوئی گفتگو نہیں کر سکتے وہ ان چند منٹوں میں اپنی تربیت کا اظہار کر دے گا۔نوجوان نسل زیادہ ذہنی ہیجان کا شکار ہے کہ وہ اس نظام کو تلپٹ کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس علم ہے نہ وہ کسی دانشمند کے پاس بیٹھے ہیں۔ ان کی براہ راست تربیت ان کے قائد عمران خان نے کی ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں وہ تمام الفاظ، ترکیبات اور محاورے استعمال کرتا ہے جو ان کے قائد کی تقریر میں شامل ہوتے ہیں۔ آپ نے تجربہ کرنا ہو تو ضرور کریں، کمال کا سماجی تجربہ ملے گا۔ نفسیات کے اساتذہ اور طالب علموں کو اس پر تحقیق ضرور کرنا چاہیے۔
اس ملک میں ہم نے مختلف نظام آزمائے، کوئی کامیاب نہیں ہوا۔ صرف پارلیمانی جمہوریت ہی اس ملک کو آگے بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے لوازمات اس نظام کے مستقل جاری رہنے سے پورے ہو جائیں گے لیکن شرط صرف یہ ہے کہ اس نظام پر اسی طرح عمل کیا جائے جو آئین بنانے والوں نے سوچا تھا۔ جہاں ترمیم کی ضرورت ہے تو اس کا نظام بھی موجود ہے اور اس پر عمل کر کے ہم اس میں ترامیم کر سکتے ہیں۔ یہ آئین ایک غیر لچکدار آئین نہیں ہے، تحریری آئین ہونے کی وجہ سے بہت کچھ لکھا جاتا ہے اور باقی معاملات میں پارلیمانی روایات کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ان روایات اور اقدار کی حیثیت بھی آئین کی طرح محترم ہوتی ہے۔ آئین کو بہت زیادہ لچکدار بنایا جاتا تو حکمران کو ہٹانا مشکل ہو جاتا اور وہ اپنی سادہ اکثریت کے بل بوتے پر ہر قسم کی قانون سازی کر کے جمہوری آمر کا درجہ حاصل کر لیتا۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنا اصل دکھا دیا ہے۔ خوبصورت چہرے کے اندر سے بہت مکروہ شکل نکلی ہے۔ اس پارٹی کو ملک پر مسلط کرنے والے اپنی آخرت کی فکر کریں کہ اس کا حساب ہونا ہے کہ آپ نے اس نظام کی آبیاری کی تھی۔ گناہوں کا کفارہ ذاتی حیثیت میں تو کرنا ممکن ہے مگر جب آپ نے پوری قوم کو تباہ کرنے کے لیے کام کیا ہو تو پھر انفرادی توبہ کی بجائے اجتماعی توبہ کریں۔ دانشمندوں کی باتیں دیر سے سمجھ آتی ہیں کہ پرندے اپنی ہی نسل کے پرندوں کے ساتھ اڑتے ہیں۔ قوم نے چار پانچ سال روزانہ ٹی وی پر مہاتما کا بھاشن سنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کے کارکنوں کی اکثریت اسی زبان میں گفتگو کرتی ہے۔ کسی کا لحاظ نہ شرم۔ سوشل میڈیا پر جو اچھل کود ہوتی ہے سچ پوچھیں تو کبھی کبھار یہ سب کچھ چھوڑنے کو دل کرتا ہے۔ پھر اس لیے جڑے رہتے ہیں کہ اپنے حصے کا کام کرتے چلیں۔
چور چور کی رٹ لگانے والے نے ملنے والے تحفے تک فروخت کر دیے اور اس کے ترجمان کہتے ہیں کہ اس کی چیز تھی اس نے فروخت کر دی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کو گولڈ میڈل ملا ہو اور وہ اس نے بازار میں جا کر فروخت کر دیا ہو۔ مجھے اس وقت بہت افسوس ہوا جب کسی نے یہ بات کی کہ نشئی اپنے گھر کی ہر قیمتی چیز فروخت کر دیتا ہے۔ عمران خان یہ اعلان کرتے کبھی نہیں تھکتے تھے کہ مجھے اللہ نے بہت کچھ دیا ہے اور حالات یہ ہیں کہ دوست ممالک کی جانب سے دی جانے والی گھڑی اور ہار تک فروخت کر دیے گئے۔ کیا اتنی غربت آ گئی تھی۔ دوسرا اس حرکت سے ریاست اور قوم کے مجموعی مزاج کو ساری دنیا میں بے نقاب کر دیا گیا کہ یہ قوم تحفہ دینے کے لائق نہیں ہے۔ عمران خان نے شائد سچ کہا تھا کہ امریکیوں کا خیال ہے کہ یہ قوم ڈالرز کے لیے اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں۔ عمران خان نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مالی اور اخلاقی اعتبار سے پاکستان کا دیوالیہ کر دیا۔
قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف سپیکر منتخب ہو گئے ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف جو جدوجہد شروع کی تھی وہ کامیاب ہوئی اور اس کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ وفاق میں بنائی جانے والی مخلوط حکومت ایک خوشگوار تجربہ ہونا چاہیے کہ سب ایک دوسرے کی مجبوریوں کو سمجھ رہے ہیں۔ پنجاب میں کس کو تخت ملتا ہے اور کس کا تختہ ہوتا ہے اس کا فیصلہ جلد ہو جائے گا لیکن ایک بات تو حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے پاس اکثریت موجود نہیں ہے اور اسی فرسٹریشن میں وہ ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں۔ اجلاس تو ہونا ہے اور امید ہے کہ حمزہ شہباز نئے قائد ایوان منتخب ہو جائیں گے اگر کوئی بہت بڑا حادثہ نہ ہوا۔ 
کیا ہمیں اپنی اپنی جگہ پر اس بدمعاشی اور رسہ گیروں کے خلاف احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔ میں آج پنجاب اسمبلی میں ہونے والی اس غنڈہ گردی کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ یہ نظام کی پرورش کرنے والے بھی اپنے انتخاب پر پشیمان ہوں گے۔ مشرقی بنگال میں ایک اجلاس میں ڈپٹی سپیکر کو اجلاس کے موقع پر کرسی ماری گئی تھی اور وہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے تھے اور اس کے بعد ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا۔ آج پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر بمشکل اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں اب وہ مصر ہیں کہ ہر حال میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہو گا۔
کیا یہ محض اجلاس کو ملتوی کرانے کی سازش ہے یا ایک بار پھر ملک کو مارشل لا کی طرف دھکیلنے کی کوشش تھی۔ پرویز الٰہی آج جس مشکل کا شکار ہیں اس راستے کا انتخاب انہوں نے خود کیا تھا کہ اچانک یو ٹرن لے کر وہ عمران خان کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔ اب ان کے لیے یہ مشکل ہو رہا ہے کہ وہ کسی اور کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنتے دیکھیں۔ ایک غلط فیصلے کو درست ثابت کروانے کے لیے وہ مزید غلطیاں کرتے جا رہے ہیں۔

مصنف کے بارے میں