فوجی عدالت میں کارروائی بند کمرے میں ہوگی ، ملزم کو سزائے موت ،عمر قید ہوئی تو اپیل کرسکے گا، صدر معاف کرسکتے ہیں : وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ میں جواب

فوجی عدالت میں کارروائی بند کمرے میں ہوگی ، ملزم کو سزائے موت ،عمر قید ہوئی تو اپیل کرسکے گا، صدر معاف کرسکتے ہیں : وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ میں جواب
سورس: File

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس  میں وفاقی حکومت نے تحریری جواب جمع کرادیا ہے۔ حکومت نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار کی تفصیلات بتا دیں اور کہا آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 اور 76 کے تحت عام شہریوں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ فوجی ٹرائل کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی جائیں۔ 

درخواست گزاروں کی طرف سے کہا گیا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کے فیصلوں کی روشنی میں پہلے ہی ٹرائل کا فیصلہ ہوچکا۔  وفاقی حکومت نے تحریری جواب میں  کہا کہ نو مئی کے واقعات کی ابتدائی رپورٹ فارمیشن ہیڈ کوارٹرز کی جانب سے  جی ایچ کیو کو پیش کی گئی ۔رپورٹ کی روشنی میں کمانڈنگ آفیسر نے انکوائری کا حکم دیا۔

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ  آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 اور 76 کے تحت عام شہریوں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ شواہد کی روشنی میں گرفتار ملزمان کو کسی بھی گواہ پر جرح کرنے کا حق ہو گا۔ شواہد ریکارڈ ہونے کے بعد آرمی رولز کے سیکشن 19 کے تحت باقاعدہ فرد جرم عائد ہوگی۔ 

آرمی ایکٹ کے سیکشن 84 کے تحت فوجی عدالت تشکیل دی جائے گی۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن 87 کے تحت فوجی عدالت کم ازکم تین فوجی افسران پر مشتمل ہوگی۔ ملزم کو فوجی عدالت کے سامنے اپنے دفاع کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔ آرمی رولز کے سیکشن 23 کے تحت ملزم ٹرائل کے دوران اپنے گواہان، کسی دوست یا اپنے وکیل سے مشاورت کر سکے گا۔

 وفاقی حکومت نے تحریری جواب میں کہا آرمی رولز کے سیکشن 96 کے تحت کوئی بھی ملزم اپنی مرضی کا وکیل کر سکتا ہے۔ ملزم کو ٹرائل کے دوران اس کے خلاف اکھٹے کیے گئے شواہد کی کاپی فراہم کی جائے گی ۔ ملزم کو ٹرائل کے دوران اس کو حاصل حقوق سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

حکومتی جواب میں کہا گیاہے ملزم کو آرمی رولز کے سیکشن 24 کے تحت اپنے دفاع کی تیاری کیلئے کم از کم 24 گھنٹے کا وقت دیا جائے گا۔ ملزم کی درخواست پر اس کو کیس کی سماعت کرنے والے افسران کے کوائف بھی فراہم کیے جا سکیں گے۔آرمی رولز کے سیکشن 33 کے تحت ملزم کو اپنے وکیل کیساتھ بغیر روک ٹوک مشاورت کرنے اور کسی بھی گواہ کا انٹرویو کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

 موقف اختیار کیاگیاہے کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت ملزم کو یہ حق بھی حاصل ہوگا کہ وہ فوجی عدالت کے کسی بھی ممبر پر اعتراض اٹھا سکے، ممبر پر اعتراض کا فیصلہ باقی ممبران کی اکثریت سے ہوگا۔ ٹرائل کے دوران ملزم کو اس کے خلاف تمام الزامات پڑھ کر سنائے جائیں گے۔ٹرائل کے دوران ہر گواہ سے حلف لیا جائے گا۔

  وفاقی حکومت کی طرف سے کہاگیاہے کہ آرمی رولز کے سیکشن 64 کے تحت سربراہ فوجی عدالت اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ فوجی ٹرائل قانون کے مطابق اور شفاف ہو۔فوجی عدالت کی کارروائی بند کمرے میں ہوگی۔ فوجی عدالت کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہوگا۔ فیصلے کیلئے ووٹ برابر ہوا تو فائدہ ملزم کو ہوگا۔

آرمی ایکٹ کے تحت ملزم سزائے موت، عمر قید یا تین ماہ سے زائد سزا پر اپیل کا حق استعمال کر سکے گا۔ ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزا کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔ ملزمان ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق استعمال کر سکیں گے۔صدر مملکت کو فوجی عدالت سے سزا پر ملزم کو معاف کرنے کا آئینی حق حاصل ہے۔

مصنف کے بارے میں