فیٹف کے بعد۔۔۔

فیٹف کے بعد۔۔۔

شکر ہے کچھ اچھی خبریں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں۔ فیٹف کے اجلاس میں اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے جو اقدامات اٹھانے کے لیے کہا گیا تھا پاکستان نے ان پر عمل درآمد مکمل کر لیا ہے۔ فیٹف کی گرے لسٹ میں جانے کی وجہ سے پاکستان کے تنہائی کا شکار ہونے کے خدشات بڑھ گئے تھے۔ عمران خان اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سارے اقدامات انہوں نے اٹھائے تھے۔ فراخدلی کے ساتھ انہوں نے جو کوشش کی ہے اسے سراہا جانا چاہیے خواہ اس میں سارا کردار ان کا نہ ہو۔ جس نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا ہے اس نے پاکستان پر احسان کیا ہے۔ دشمن تو ایک عرصہ سے اسی کوشش میں تھا کہ پاکستان پر دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے الزام کو ثابت کیا جائے۔ آج بین الاقوامی برادری نے اس بات کی توثیق کر دی کہ پاکستان نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے۔ اب ایک ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی اور اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ ہو جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ ترکی اور متحدہ عرب امارات کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ ان ممالک سے غیر قانونی طریقوں سے پیسہ باہر بھیجا جاتا تھا یا وصول کیا جاتا تھا۔ برلن میں فیٹف کے اجلاس میں کہا گیا کہ اب پاکستان کی ان سائیٹ انسپکشن ہو گی۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے امور کی نگرانی کرنے والے ادارے نے پاکستان کو دو ایکشن پلان دے تھے اور اسے کہا گیا تھا کہ وہ 34 شرائط کو پورا کرے۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئر نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’پاکستان کو آج گرے لسٹ سے نکالا نہیں جا رہا۔ ملک کو اس فہرست سے نکالا جائے گا اگر یہ مقامی دورے میں کامیاب ہوتا ہے۔‘پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فیٹف نے پاکستان کے دونوں اہداف 2018 اور 2021 کی تکمیل کو تسلیم کیا ہے اور گرے لسٹ سے نکالنے کے آخری مرحلے کے طور پر پاکستان کے آن سائٹ وزٹ کی منظوری دی ہے۔
پاکستان کو سنہ 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنایا گیا تھا اور مارچ 2022 میں ہونے والے نظرثانی اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ’سفارشات کی تکمیل میں پیشرفت کی ہے‘ تاہم چند نکات پر مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔یہ فیصلہ ایف اے ٹی ایف کے 13 جون سے 17 جون تک جاری رہنے والے ایک جائزہ اجلاس میں ہوا جس کی میزبانی برلِن کر رہا تھا اور اس اجلاس میں 206 ممبر ممالک کے نمائندے شریک تھے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، اقوامِ متحدہ اور اگمونٹ گروپ آف فنانشل یونٹس بھی اس اجلاس میں بطور مبصر شامل تھے۔اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیرِ مملکت برائے خارجہ ا±مور حنا ربانی کھر کر رہی تھیں۔ اپنے دورے کے دوران انھوں نے موجودہ اور سابقہ ایف اے ٹی ایف کے نمائندگان اور سربراہان سے ملاقاتیں کی ہیں۔پاکستان اس وقت ایف اے ٹی ایف کی سنہ 2018 میں دی گئی تمام 27 سفارشات پر عملدرآمد کر چکا ہے جبکہ 2021 میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کی جانب سے دیے گئے سات نکات میں سے چھ کو قبل از وقت مکمل کر چکا ہے۔ یاد رہے کہ 2020 میں منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستان نے قانون میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے لیکن وفاقی حکومت کے ترجمان کے مطابق سنہ 2021 کے ریویو میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ’دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قانونی کارروائی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں پیشرفت کی مزید مثالیں سامنے لانے کو کہا گیا تھا۔' حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کو رہ جانے والی دو سفارشات میں قانون میں ترمیم کے ساتھ ساتھ اس کے نفاذ سے متعلق خدشات تھے، جن کا اظہار وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ 2021 کی رپورٹ کے مطابق ادارے نے فروری 2021 میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تین اہم ترین سفارشات کی تکمیل کرے جن میں دہشتگردوں کو سزا، ان معاملات کی قانونی چارہ جوئی اور مالی معاونت پر پابندیاں شامل ہیں۔
ہم اس لیے بھی شکنجے میں آئے ہیں کہ ہماری ایک سرحد پر افغانستان تھا جہاں جنگ جاری تھی اور امریکہ اس کا فریق تھا۔ دوسری طرف بھارت، جو کشمیر میں پھنسا ہوا تھا۔ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے ان دونوں نے فیٹف کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فوج کو اس کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل افتخار بابر کے مطابق 2019 میں ڈی جی ایم او کے ماتحت جی ایچ کیو میں حکومت پاکستان کی درخواست پر ایک سیل بنایا گیا تھا۔30 سے زائد محکموں اور وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان کوارڈینیشن کا میکنزم بنایا گیا، سیل نے دن رات کام کر کے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسگ پر موثر لائحہ عمل بنایا جس پر تمام اداروں نے عمل کیا اور اس کی وجہ سے قانون بنا۔ ان اقدامات کی وجہ سے ترسیلات میں تاریخی بہتری آئی، اگر منی لانڈرنگ کے حوالے سے دیکھیں تو 58 بلین روپے پاکستان نے ریکور کیے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔اس تنظیم کے ارکان میں انڈیا شامل ہے تاہم پاکستان اس کا رکن نہیں ہے۔

مصنف کے بارے میں