’’زنجیر عدل اب نہ کھینچے گا کوئی ہاتھ‘‘

’’زنجیر عدل اب نہ کھینچے گا کوئی ہاتھ‘‘

نجانے کچھ عرصے سے وطن عزیز کے چالاک اور ہوشیار عوام کے نصیب میں بھولی بھالی اور معصوم بلکہ گناہوں سے پاک حکومتیں، عوام کے گناہوں کی پاداش یا شاید ان کی نیکیوں کے صلے میں مل رہی ہیں، کہ عوام تو عوام پاکستان کے ہمسائے، اور خصوصاً وزیراعظم پاکستان کے متوقع دورہ روس کا سن کر اب نہ صرف عمران خان بلکہ ہمارے ہم وطنوں پر بھی امریکی صدقے اور واری ہونے کو تیار ہوگئے ہیں، جوبائیڈن سے جارج بش تک ان میں جو خلوص ووفا صدر زرداری کے دورہ چین کے موقع پر یکدم عود کر آیا تھا، ہوسکتا ہے، کہ ان کا قربانی کا یہ جذبہ پیدائشی بلکہ موروثی ہے جبکہ ہمارے ہاں تو حکمرانوں کی ایمان کی نشانی، اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، کہ وطن عزیزسے محبت کی خاطر وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، اور وطن کی خاطر وہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرتے تھے، حالانکہ یہ کسی کو بتانے کی کیاضرورت تھی اسی چیز کا تو ہرحکمران حلف اُٹھاتا ہے، اور یہ تو اس کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔ 
اور اگر سب سے پہلے ایمان کو رکھا ہوتا تو پھر خود بخود پاکستان اس میں شامل ہو جاتا، کیونکہ وطن سے محبت بھی تو ایمان کی نشانی ہے، کسی آمر نے تو سب سے پہلے صدر پاکستان کا نعرہ بلند کرکے، رشتے ناطے یاری دوستی، غرضیکہ ہرقسم کے اخلاقی تقاضوں کو ہیچ کر دیا تھا اور بیک وقت تین عہدوں کی تنخواہ ’’اُچک‘‘ لیتے تھے  اور پھر میاں اظہر سے لے کر چوہدری افتخار سابق چیف جسٹس آف پاکستان، اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اس کی زد میں آگئے تھے کیونکہ یہ کسی وزیراعظم کا نہیں، صدر پاکستان کا فیصلہ تھا، اگر کسی بھی رہنما نے ایک دہائی حکومت کرنی ہے، تو پھر دورآمر کی طرح اس وقت کے ’’ظالمو قاضی آرہا ہے ‘‘ اور قومی مجرم ڈاکٹر عبدالقدیر خان، نواز شریف، شہباز شریف، لیاقت بلوچ، اور اس وقت کے عمران خان جن کو وطن کی محبت جینے نہیں دیتی تھی، اور وہ امریکہ مخالفت میں کسی قسم کی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتے تھے، بقول امجد اسلام امجد ، آئے دن مہنگائی کا طوفان کھڑا کرکے، اور ہرروز تیل کی قیمتیں بڑھا کر کروڑوں عوام کو بھوکا اور خزانے کے پیٹ کو بھر کر غریب عوام کو اپنے بچوں سمیت خودکشی پہ مجبور ہوکر آمادہ کرتے نظر آتے ہیں، 
گردسفر میں بھول کے منزل کی راہ تک
پھر آگئے ہیں، لوگ نئی قتل گاہ تک!
اک بے کسی کا حال ہے پھیلا چہار سو 
اک بے بسی کی دھند ہے دل سے نگاہ تک
لیکن ذرا ذہن پر زور دیجئے کہ حکومتیں اپنے استحکام کی خاطر ایسے کام کرگزرتی ہیں، مگر ملکی استحکام کیلئے ایسے کام کرگزرتی ہیں مگر اس کا اعتراف کبھی بھی نہیں کرتیں، یہ بات تو تاریخ کا حصہ ہے، دریائے نیل پر حاکم وقت ہرسال انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے، تو تاریخ گواہ ہے، کہ نہ صرف دریائے نیل بہنا شروع ہو جایا کرتا تھا، بلکہ حکمران وقت کو بھی سکون نصیب ہوجاتا تھا، خدا کا شکر ہے کہ آج ہمارا ایمان بھی ان بلندیوں کو بحیثیت قوم چھو رہا ہے، کیونکہ موجودہ حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے، اور موجودہ حکومت کو گرانے کے لیے بیک وقت حکمران اور حزب مخالف ، چودھری برادران سے قربانی مانگ رہے ہیں، چودھری کے لفظی معنی، سرغنہ، نمبردار، گائوں کا سردار، میر محلہ اور زمینداروں کو کہا جاتا ہے، موجودہ چودھری برادران کے حسب نسب میں چودھری ظہورالٰہی ، چودھری شجاعت حسین کے والد محترم تھے، جو کئی دفعہ ممبر قومی اسمبلی کے منصب پر بھی فائز رہے، تقسیم پاکستان سے پہلے وہ پولیس کانسٹیبل تھے، مگر پاکستان بننے کے بعد انہوں نے تجارت شروع کردی، اور گجرات میں خاصہ نام کمایا، اور پاکستان کی سیاست میں اتنا فعال کردار ادا کیا کہ ابھی تک ان کا خاندان پاکستانی سیاست میں فعال ہے، اور حکومتیں ان کی وجہ سے زیروبم کا شکار ہو جاتی ہیں ایک وقت تاریخ نے ایسا بھی دیکھاہے ، کہ چودھری ظہور الٰہی صاحب پہ مخالفین نے زمیندار ہونے کے ناطے ان پر بھینسیں چوری کا مقدمہ درج کرادیا تھا، اب چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا ہے کہ حکمران وقت اور حزب اختلاف کے شہباز شریف بھی دست نیاز اور دست شفقت حاصل کرنے کیلئے ان کے دردولت پہ حاضری دیتے نظر آتے ہیں، ق لیگ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انحراف ناممکن ہے، آج کل کے سیاسی نشیب وفراز میں جہاں بانی متحدہ الطاف حسین جن کے بارے میں کسی کا دعویٰ تھا، کہ وہ لندن جاکر اسے واپس لائیں گے متحدہ کو بیساکھی بناتے نظر آتے ہیں، پنجاب میں  جومقام ق لیگ کو حاصل ہے، کراچی ، سندھ میں یہ درجہ اس جماعت کو حاصل ہے، کروڑوں باسی پون صدی گزرنے کے باوجود ابھی تک اس بات کے منتظر ہیں کہ نجانے کب ملکی مفاد کو مقدم سمجھا جائے گا، بقول شاعر 
زنجیر عدل اب نہ کھینچے گا کوئی ہاتھ 
 رلنے ہیں اب تو پائوں میں تاج وکلاہ تک

مصنف کے بارے میں