اگست کو 31 دن کا بنانے کے لیے فروری سے دن کم کرنے کی حیران کن وجہ

اگست کو 31 دن کا بنانے کے لیے فروری سے دن کم کرنے کی حیران کن وجہ

لاہور: سال کے 12 مہینوں کے دن برابر کیوں نہیں ہوتے؟ کچھ مہینے 30 دن کے، کچھ 31 دن کے جبکہ فروری میں صرف 28 دن کیوں ہوتے ہیں؟ اس دلچسپ سوال کا جواب قدیم رومی کیلنڈر کی تاریخ میں پوشیدہ ہے۔

آج کل استعمال ہونے والا گریگورین کیلنڈر دراصل جولین کیلنڈر پر مبنی ہے، جو قدیم روم میں رائج تھا۔ ابتدائی طور پر قدیم روم کے کیلنڈر میں مہینوں کی تاریخیں چاند کے حساب سے طے کی جاتی تھیں اور ایک سال 365.25 دنوں پر مشتمل ہوتا تھا۔


738 قبل مسیح میں قدیم رومی باشندے 10 مہینوں کا کیلنڈر استعمال کرتے تھے، جس کا آغاز مارچ سے ہوتا تھا۔ ان 10 مہینوں کے بعد تقریباً 60 دن شمار نہیں کیے جاتے تھے۔ 700 قبل مسیح میں ان باقی دنوں کے لیے جنوری اور فروری کو شامل کیا گیا۔ اُس وقت جنوری سال کا پہلا اور فروری آخری مہینہ تھا۔


424 قبل مسیح میں فروری کو سال کا دوسرا مہینہ بنا دیا گیا۔ بعد ازاں، 46 قبل مسیح میں رومی حکمران جولیس سیزر نے کیلنڈر میں اصلاحات کیں۔ ان تبدیلیوں کے تحت، فروری کے علاوہ تمام مہینے 30 یا 31 دن کے کر دیے گئے۔ اُس وقت فروری 29 دنوں کا ہوتا تھا اور ہر چار سال بعد 30 دن کا ہو جاتا تھا۔


بعد میں رومی شہنشاہ آگستس نے فروری سے ایک دن کم کر کے اگست کو 31 دن کا مہینہ بنا دیا، جس کے بعد فروری 28 دنوں کا رہ گیا۔ تب سے 7 مہینے 31 دن، 4 مہینے 30 دن اور ایک مہینہ (فروری) 28 دن کا ہوتا ہے۔

یہ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ رومی دور کے کیلنڈر میں ہونے والی تبدیلیاں آج کے جدید کیلنڈر کے غیر مساوی مہینوں کی اصل وجہ ہیں۔