افغان باقی کہسار باقی

افغان باقی کہسار باقی

30 اگست کی رات آخری امریکی فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا اور پورے کا پورا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آ گیا۔ کابل میں آتش بازی کی گئی اور اپنی آزادی کا جشن منایا گیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی فوج کو افغانستان سے نکالنے کے فیصلے کی مکمل ذمہ داری قبول کرلی اور کہا کہ وہ امریکہ کو مزید جنگوں میں نہیں دھکیلنا چاہتے۔ افغانستان کی جنگ سے امریکی معیشت پر دباؤ پڑا ہے مگر اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکی فوجی بھی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوئے اور خود امریکی صدر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سابق امریکی فوجیوں کی خودکشی کی تعداد حیران کن حد تک بڑھ رہی ہے۔18سابق امریکی فوجی روزانہ خودکشی کر رہے ہیں۔خود کشیوں کے اس رجحان کے حوالے سے ہم نے 2003ء میں اپنی کتاب امریکہ اسرائیل اوراسلام میں ایک مفصل باب تحریر کیا ہے اور آج خود امریکی صدر اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کے تمام تجربات ناکامی سے دوچار ہوئے۔ طالبان پاکستان سے زیادہ امریکہ کی ضرورت تھے اور اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ نے انہیں افغانستان میں اقتدار میں لانے کے لیے کام کیا تھا۔ اس سے قبل افغان مختلف سیاسی گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم تھے اور ان کی اکثریت کو امریکہ اور سعودی عرب پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتے تھے۔ کابل پر قبضے کی لڑائی کی وجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچنے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا تھا اس لیے انہو ں نے افغانستان کی ان تمام جماعتوں کی فنڈنگ بند کر دی جو ایک دوسرے کے خلاف افغانستان میں برسر پیکار تھے۔ یہ 29اکتوبر 1994ء کی بات ہے جب پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں،پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی سرپرستی میں 30ٹرکوں کا قافلہ افغانستان کے لیے روانہ کیا گیا۔ ان تمام ٹرکوں کے ڈرائیور سابق فوجی تھے اور پاکستان سے تربیت یافتہ افغان طالب علوں کو اس قافلے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے اس سارے آپریشن کو شروع کیاتھا۔ وہ ایک تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ کیا ان طالبان کی مدد سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان سے افغانستان جانے والے تجارتی روٹ پر جگہ جگہ وار لارڈز بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ان قافلوں سے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ 5نومبر تک نہ صرف طالبان نے قندھار تک کے سارے راستے کو صاف کر دیا بلکہ قندھار کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس وقت افعانستان میں صورتحال یہ تھی کہ طاقت کے بل 
بوتے پر جس علاقے پر چاہو قابض ہو جاؤ۔ اگلے تین مہنیوں میں طالبان نے بغیر کسی بڑی مزاحمت کے 31صوبوں میں سے 12کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ ایک برس سے بھی کم عرصہ یعنی ستمبر 1995ء تک انہو ں نے ہرات پر بھی قبضہ کر لیا اور سنٹرل ایشیاء تک رسائی کے راستے کو کھول دیا۔یہ ہوتے ہی امریکہ کی تیل کی بڑی کمپنی یونوکال نے ترکمانستان کے ساتھ تیل کی پائپ لائین کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔یونوکال کو یقین ہو گیا کہ طالبان اگر افغانستان پر حکومت کرتے رہے تو ان کی ایک ہزار میل لمبی تیل کا پائپ لائین کی حفاظت بھی ممکن ہو سکے گی اور اس کے بدلے میں افغانستان اور پاکستان دونوں کو اس کی رائلٹی دی جائے گی۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان کو تیل کی ترسیل کے عوض8بلین ڈالر سالانہ کا ریونیو ملتا۔امریکہ اور یونو کال کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ افغانستان پر شریعت نافذ ہوتی ہے یا وہ ایک جمہوری ملک بنتا ہے انہیں صرف اس بات سے غرض تھی کہ پورے افعانستان پر ایک ہی انتظامیہ ہو۔ طالبان اور امریکیوں کے درمیان یہ معاہدہ اس وقت ٹوٹا جب اسامہ بن لادن نے امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کیا اور طالبان نے بلین ڈالر کے حامل اسامہ بن لادن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔یہاں سے افغانستان کی تباہی اور بربادی کا آغاز ہو گیا۔طالبان کے ایک وفد کو نومبر 1997ء میں امریکہ کا دورہ کروایا گیاان کا شاہانہ استقبال کیا گیا اوران کے اعزاز میں محتلف دعوتوں کا اہتمام کیا گیا۔کلنٹن انتظامیہ طالبان کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کیے رکھی اور اس کی ایک وجہ ایران میں عدم استحکام پیدا کرنے کی پالیسی تھی۔ امریکی کانگرس نے اس مقصد کے لیے 20ملین ڈالر خفیہ آپریشن کے لیے مختص کیے گئے اور طالبان کو بھی اس فنڈ سے حصہ ملا۔1994سے لے کر 1997امریکیوں نے طالبان کے ساتھ سفارتی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ اسی دوران طالبان نے بہتر شرائط کے لیے ارجنٹائین کی تیل کمپنی برڈاس کے ساتھ بھی بات چیت کا آغاز کر دیا تھا تاکہ یونوکال کے ساتھ بہتر شرائط پر معاہدہ ہو سکے۔ مارچ1996ء میں امریکہ کے نامور سینیٹر ہینک براؤن نے یونوکال کے لیے طالبان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کابل کا دورہ کیا۔ ایک ماہ بعد امریکہ کے اسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ رابن رافیل نے پاکستان افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ممالک کا دورہ کیا تاکہ طالبان کو یونوکال سے معاہدہ پر مجبورکیا جا سکے۔ پاکستان پر بھی دباؤ ڈالا گیا کہ طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر ے۔
20برس گزرنے کے بعد آج یہ سوال پھر سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا افغانستان کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محرک وسائل پر قبضہ تو نہیں تھا کہ کابل پر ایک ایسی حکومت ہو جو ان کی پائپ لائن کے منصوبے کو آگے بڑھا سکے۔ یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ اسامہ بن لادن کا امریکہ کے خلاف اعلان جنگ اس وقت ہوا جب یونوکال کے منصوبے بروئے کار نہیں آ رہے تھے۔ جیو پولیٹیکل تھیوری کے خالق برطانیہ کے ہالی فورڈ میکنڈرڈ نے ایک دفعہ کہا تھا جس کا سنٹرل ایشیا پر کنٹرول ہو گا اصل میں وہی پوری دنیا پر کنٹرول کرے گا۔سنٹرل ایشیا میں تیل کے ذخائر کا اندازہ 270بلین ڈالر لگایا جا رہا تھا جو پورے دنیا کے تیل کا20فیصد بنتا ہے۔امریکی افغانستان سے دم دبا کر بھاگ نکلے ہیں اور طالبان ایک بار پھر افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں۔ امریکی اندازے غلط ثابت ہوئے اب اس کا الزام افغان فوج پر لگایا جائے یا اشرف غنی کو بزدل قرار دیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس جنگ میں امریکہ ہارا ہے اور طالیان کو فتح نصیب ہوئی ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی اور جو بائنڈن کی ٹیلی فون کال لیک ہوئی ہے جس میں جو بائیڈن اشرف غنی سے کہہ رہے ہیں کہ ستر اسی ہزار طالبان کے مقابلے میں تمہارے پاس تین لاکھ کی تربیت یافتہ فوج ہے جو کیل کانٹے سے لیس ہے لیکن اس فوج نے اس وقت کابل طالبان کے حوالے کر دیا جب خبر آئی کہ اشرف غنی کابل سے بھاگ نکلے ہیں وہ فوج طالبان سے کس کی قیادت میں لڑائی لڑتی۔اس جنگ نے پاکستان اور افغانستان کا بہت نقصان کیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کریں۔ امریکہ کو اس وقت دلاسے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے زخموں کو صاف کرے اور ان کے مندمل ہونے کا انتظارکرے۔ فوجی انخلا سے چند دن پہلے بھی کئی امریکیوں کے تابوت افغانستان سے واپس گئے ہیں۔اعداد وشمار یہ بتا رہے ہیں کہ اس جنگ میں امریکہ کے تین سے چار ہزار فوجی ہلاک ہوئے ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے بہت کچھ چھپایا گیا ہے۔براؤن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق 2020ء تک امریکہ نے اس جنگ میں 978بلین ڈالر خرچ کیے۔ طالبان نے ابھی اپنے منصوبے کا اعلان نہیں کیا مگر مغربی پریس ابھی سے عوام میں ایک خوف کی فضا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرر ہا ہے۔ طالبان نے اس بار یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں دوسری صورت میں سہمے اور ڈرے ہوئے افغان ملک سے نکلنے کے لیے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔