ایک ایسی خاتون جو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے پنجاب سیکرٹریٹ دروازے پر چڑھ گئی 

ایک ایسی خاتون جو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے پنجاب سیکرٹریٹ دروازے پر چڑھ گئی 

زاہدہ حنا   (قسط1)

2002ء کے موسم بہار میں یہ خیال مجھے اداس کر دیتا ہے کہ پاکستانی عورت کے لیے موسم لالہ وگل کی نوید ابھی بہت دور ہے۔ آج جب میں ’’پاکستانی عورت: آزمائش کی نصف صدی‘‘ کے موضوع پر بات کرنے کے لیے حاضر ہوئی ہوں تو نگا ہوں میں ایک نوعمرلڑ کی کا روشن کتابی چہرہ اور غلافی آنکھیں گھوم جاتی ہیں۔ اس لڑکی کی تصویر میرے بچپن اور کم عمری میں ہر سال 14 اگست کو اخبارات کے آزادی ایڈیشن میں چھپتی رہی۔ یہ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ اس 13سالہ لڑکی کا نام فاطمہ صغریٰ تھا اور اس نے فروری 1946ء کی کسی تاریخ کو لاہور میں نکلنے والے عورتوں کے ایک جلوس میں شرکت کی تھی۔ یہی فاطمہ صغریٰ تھی جو ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتی ہوئی پنجاب سیکریٹریٹ کے دروازے پر چڑھ گئی تھی، یونین جیک اتار پھینکا تھا اور اس کی جگہ مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔


اس وقت مجھے وہ تمام لڑکیاں اور عورتیں یاد آ رہی ہیں جو حصول پاکستان کی تحریک میں سرگرم تھیں اور جنہوں نے اپنے حقوق کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی آزادی کے لیے صدیوں پرانی روایات کو ترک کیا تھا اور سڑکوں پر نکلی تھیں۔ لاہور کی وہ تین گمنام برقعہ پوش لڑکیاں جنہوں نے 14 فروری 1946ء کو لاہور جیل پر مسلم لیگ کا پر چم نصب کیا تھا۔ 16 جون 1946ء کومتوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اور خاکسار عورتوں کے جلوس کی قیادت کرنے والی 11سالہ سعیدہ بانو، جو اس میں شرکت کے لیے دلی سے لاہور آئی تھی، جس کی پُرجوش تقریروں نے دلی سے لاہور تک اسے عورتوں کے سیاسی جلوسوں کی ہیروئن بنادیا تھا۔ طبقۂ اعلیٰ کی بیگم اعزاز رسول، بیگم ایم اصفہانی، بیگم صدیق علی خان، بیگم اختر، بیگم قاضی عیسیٰ، لیڈی مراتب علی، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم شاہ نواز، لیڈی عبدالقادر، لیڈی ہارون، شائستہ اکرام اللہ، فاطمہ بیگم، نورالصباح بیگم، مس قریشی اور ان کے علاوہ ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی وہ تمام نامور اور گمنام لڑکیاں اور عورتیں جنہوں نے مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی حمایت میں دن رات ایک دیئے تھے، لاٹھیاں کھائی تھیں، حوالات میں بند ہوئی تھیں ، جن کی یہ حمایت غیرمشروط تھی، جنہوں نے مسلم لیگ کے کسی بھی رہنما سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ پاکستان بن گیا تو کیا ہم عورتوں کو بھی کچھ حقوق ملیں گے؟


ان ہی عورتوں کو متحرک کرنے اور تحریک پاکستان میں شامل کرنے کے لیے جناح صاحب نے 1942ء سے انہیں بہ طور خاص مخاطب کرنا شروع کر دیا تھا، عورتوں کی ایک سب کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس کا مقصد ان کی سماجی، اقتصادی  اور ثقافتی بہتری کے لیے تجاویز مرتب کرنا تھا۔ 26 اپریل 1943ء کو دلی میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں لیاقت علی خان نے ایک ریزولیشن پیش کیا تھا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا تھا۔ اس ریزولیشن میں یوپی بہار، پنجاب، بمبئی، آسام، سندھ، بلوچستان، دلی، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور مدراس سے تعلق رکھنے والی خواتین کے نام مسلم لیگ ویمن سب کمیٹی میں شامل کیے گئے تھے۔


تحریک پاکستان کے لیے عورتوں کی حمایت کس قدر اہم تھی اور ان کا اس وقت کے مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونا مسلم لیگ کی قیادت کے لیے کتنی اہمیت رکھتا تھا، اس کا اندازہ جناح صاحب کی 1944ء کی اس تقریر سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے علی گڑھ میں کی تھی اور جس میں کہا تھا:
’’یہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے کہ ہماری عورتیں گھروں کی چاردیواری میں قیدیوں کی سی زندگی گزاریں۔ ہماری عورتیں جن شرمناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آپ اپنی عورتوں کو زندگی کے ہر شعبے میں کامریڈ کی طرح ساتھ لے کر چلیں‘‘۔


مسلمان عورتیں پاکستان کی حمایت میں جس حد تک آگے گئیں، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ پشاور جہاں آج اکیسویں صدی میں بھی عورتیں برقعے یا چادر میں باہر نکلتی ہیں، وہاں سینکڑوں عورتوں نے اپریل 1947ء میں نقاب یا حجاب کے بغیر جلوس نکالا تھا۔ یہ بھی پٹھان عورتیں تھیں جنہوں نے ان ہی دنوں ’’پاکستان براڈ کاسٹنگ اسٹیشن‘‘ کے نام سے ایک خفیہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا تھا جس کا کھوج 14اگست 1947ء تک نہیں لگایا جاسکا۔
آج مجھے یہ تمام عورتیں اور ان کی بے غرض جد وجہد یاد آتی ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ تمام عورتیں اور لڑکیاں جو اس وقت حصول پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں سرگرم تھیں، آج اگر وہ زندہ ہیں، یا وہ جو ختم ہو چکی ہیں اگر چند گھنٹوں کے لیے زندہ ہو جائیں تو کیا ان کے ذہن میں کئی سوال نہیں اُٹھیں گے؟ کیا وہ نہیں سوچتی ہوں گی کہ اسی پاکستان کے لیے انہوں نے سینکڑوں برس پرانی روایات سے بغاوت کی تھی جہاں آج کروڑوں لڑکیاں اور عورتیں ختم نہ ہونے والی آزمائش میں مبتلا ہیں اور ہر آنے والا دن اس میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس جدوجہد کے دوران انہوں نے اپنے لیے کوئی حق نہیں مانگا تھا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک آزاد ملک کے قیام کی جدوجہد میں سڑکوں پر نکلی تھیں تو کیا انہیں تحریک پاکستان کے رہنماؤں سے، پاکستان بنانے والوں سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا؟ کیا وہ یہ نہیں پوچھ سکتیں کہ انہیں ایک ایسے پاکستان کے خواب کیوں دکھائے گئے جہاں عورت کو ’’کامریڈ‘‘ ہونے کا مژدہ سنایا گیا تھا اور جہاں وہ ’’کاری‘‘ بنادی گئیں۔ جہاں اس سے بعض وہ حقوق بھی چھین لیے گئے جو ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے انگریزوں نے اسے دیئے تھے۔
’’پاکستانی عورت: آزمائش کی نصف صدی‘‘ پر بات کرنے سے پہلے جی چاہتا ہے کہ تقسیم سے پہلے اور بعد کے بعض الم ناک معاملات زیربحث لائے جائیں، بعض سوال اٹھائے جائیں۔ اس بات کا تعین کیا جائے کہ ’’پاکستانی عورت‘‘ کون تھی اور کب سیاسی اور ریاستی طور پر وجود میں آئی۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبے اور بہ طور خاص تقسیم ہندوستان کے اعلان اور سرحدوں کے تعین کے آغاز کے ساتھ ہی ’’پاکستانی عورت‘‘ وجود میں آگئی تھی۔
وہ تمام مسلمان عورتیں جنہوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے لیے ووٹ دیئے، جو پاکستان کے نام پر پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان کی طرف سفر کرتے ہوئے قتل ہوئیں، کھیتوں کھلیانوں میں رزق خاک ہوئیں، جن عزت بچانے کے لیے ان کے مردوں نے خود انہیں قتل کیا، جو کنوؤں میں کود گئیں، یہ سب کی پاکستانی عورتیں تھیں جو پاکستان کی خاطر نا قابل بیان آزمائشوں سے گزریں۔ ای طرح وہ تمام عورتیں جو ہندو یا سکھ تھیں اور جن کی اکثریت پنجاب اور سندھ میں آباد تھی، سرحد عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہونے کے لمحے تک پاکستانی تھیں۔ یہ وہ تھیں جنہیں مسلمان پڑوسیوں نے مال غنیمت سمجھا ، وہ پنجاب کے دیہاتوں اور شہروں میں پاکستانی ہونے کے دعویدار مسلمانوں کے ہاتھوں عصمت دری قبل اور گلیوں میں برہنہ پھرائے جانے کے عذاب سے گزریں۔ 10 مارچ 1947 ء اور 15 مارچ 1947ء ضلع راولپنڈی کے گاؤں بیوال اور تو ہا خالصہ میں سکھ اور ہندو عورتوں پر جو گزری، پاکستان بن جانے کے بعد 26 اگست 1947ء کو پاکستانی کیمپوں میں ان کے ساتھ کچھ ہوا، میں اسے بھی پاکستانی عورت کی آزمائش سمجھتی ہوں۔ پاکستان کی سرحدوں میں موجود سکھ اور ہند دعورتوں میں سینکڑوں ایسی تھیں جن کے مردوں انہیں اپنے ہاتھوں سے ہلاک کیا، جنہوں نے اپنی بے حرمتی کی بجائے زندہ سیل بہانا کنوؤں میں جانا انتخاب کیا۔ یہ ہندو اور سکھ عورتیں بھی پاکستانی تھیں۔ ان تمام عورتوں زندگی اور کے ناموں کا تحفظ حکومت پاکستان کی ذمہ میں جب یہ نکتہ اٹھاتی ہوں تو مجھ سے کہا جا تا ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس وہ وسائل نہیں تھے جن سے وہ اپنے شہریوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ کرسکتی۔ یہ جواب مجھے چندلحوں کے لیے خاموش کر دیتا ہے، پھر مجھے پاکستان کی سرزمین پر موجود ہندو اور سکھ عورتوں کے ساتھ ہونے والے دو مظالم یاد آتے ہیں جو 1948ء￿  میں روا رکھے گئے لیکن میں خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتی ہوں۔ معا مجھے خیال آتا ہے کہ چلیں ان بے کس و بے آسرا عورتوں کے لیے پاکستانی سپاہیوں کی سنگینیں موجود تھیں لیکن ہمدردانہ بیانات سے تو ان کی اشک شوئی ہو سکتی تھی۔ میں فوراً 11 اگست 1947ء￿  کی اس تقریر کو نکالتی ہوں جو بانی پاکستان نے کراچی میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی اور جس کا گذشتہ پچپن برس سے شہرہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس تقریر میں جناح صاحب نے عورتوں پر ہونے والے ان مظالم کے حوالے سے اپنے رنج وغم کا اظہار کیا ہوگا اس لیے کہ پنجاب کے دیہات اور شہر اس وقت خون میں ڈوبے ہوئے تھے ، اور اگر انہوں نے اس مسئلے پر اظہار خیال کو مناسب نہ جانا ہوگا تو کم سے کم پاکستانی عورتوں کو برابری کا حق دینے اور ان کی بہتری کی بات تو یقینا کی ہوگی۔ میں اس تقریر کو پڑھتی ہوں۔ اس میں پاکستان کے شہریوں ، مسلمانوں، ہندوؤں ،سکھوں اور عیسائیوں کی مذہبی آزادی کا ذکر ہے۔ اس میں اقربا پروری، چور بازاری اور رشوت ستانی کا ارتکاب کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے، حد تو یہ ہے کہ اینٹ اور پتھر سے بنی ہوئی مسجدوں، مندروں ، گوردواروں اور گرجا گھروں کا تذکرہ ہے لیکن گوشت پوست کی اس مسلمان، ہندو اور سکھ عورت کا کوئی ذکر نہیں ہے جو پاکستان کی قیمت اپنے بدن کی بے حرمتی اور پامالی سے ادا کر رہی تھی۔ اس تقریر میں ایک مرتبہ بھی لفظ عورت استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کے حقوق یا فرائض کی بات نہیں کی گئی ہے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں مسلمان عورتوں کے ووٹ تو حاصل کیے گئے لیکن جب پاکستان بننے کے بعد آزادی کے ثمرات کی تقسیم کی بات آئی تو یہ عورتیں یوں فراموش کر دی گئیں جیسے ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ 
1947خونیں واقعات پر یادفراموشی کی ایک دبیز تہہ جم چکی ہے سرکاری کاغذات اور کتابوں میں خانماں بربادعورتوں اور بچوں کی داستان الم لفظ لفظ موجود جنہیں پاکستانی حکومت بے چھوڑا۔ یہ اغوا شدہ عورتیں فسادات کے دوران برباد گئیں اور ان کے وہ بچے جن کے باپ فساد کرنے غنڈے بھی تھے پاکستانی پولیس اور قانون نافذ کرنے ایجنسیوں کے جوان بھی ان بچوں پر، ان ماؤں پر کیا گزری ، آج کسی کو یاد نہیں۔ اغوا شدہ عورتوں کو کرنے کا نومبر 1947ء  1957ء  جاری رہا۔ یہاں میں صرف ان اغوا شدہ عورتوں کا کروں گی فروری اور 1948ء  کے گنگارام ہسپتال میں لائی گئیں، آبادکاری کے کمشنر راجہ غضنفر علی خان جن عیادت کو آ? پر جو بھی گزری پاکستان سرزمین پر پاکستان سرکاری خزانے سے لینے والے جوانوں کے ہاتھوں گزری پاکستان بنانے والے کسی رہنما نے ان شدہ عورتوں کو حال پہنچانے والوں بارے میں تفتیش کرنا اور سزا دینا تو کی بات ہے، ان کے ہمدردی کے دو بول کہے۔ یہ تسلیم نہیں کیا پاکستان بن جانے فسادات کی آگ بجھ جانے کے بعد ان عورتوں کا تحفظ پاکستان ذمہ داری تھی۔ یہ صرف کھیپ کا قصہ۔ ایسی تو ہزار عورتیں اور تھیں پاکستانی ریاست نے 1947ء  میں اغوا شدہ عورتوں کے برآمد کیے کے بارے میں ہندوستان سے معاہدے پر دستخط کیے تھے لیکن معاہدے پر نیم سے عمل ہوا اس کا اندازہ ہندوستانی قانون پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائیوں جاسکتا ہے مہینوں چلتی رہیں اور میں حکومت پاکستان رویوں بحث ہوتی رہی۔ یہ بحث اس بات طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ ابتدا سے حکومت پاکستان گزرنے والے عذابوں کے بارے میں جائے اور صورت حال میں ان دست سے کس قدرکم دلچسپی تھی ابتداء￿  بھلا دی جانے والی کے ذکر سے اس لیے ہے تا کہ یہ بات واضح ہو سکے کہ پاکستانی ریاست نے اپنے قیام کے پہلے لمحے سے عورتوں کے مسائل و معاملات کو نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کیا۔ چ تو یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں میرو سے اس قدر نمایاں تھا کہ مئی 1948ء میں بھاولپور میں دو پاکستانی اور پٹیالہ میں دو ہندوستانی سماجی کارکن خواتین مغویہ شدہ ہندو، سکھ اور مسلمان عورتوں کی حالت زار کے بارے میں اپنی اپنی حکومتوں کی بے حسی کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور ہوئیں۔ اس صورت حال کی نشان دہی کرتے ہو? 24 مئی 1948ء کو لاہور میں متعین برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر ایچ ایس اسٹینسن نے کراچی میں تعینات اپنے ہائی کمشنر کو ایک رپورٹ میں لکھا: حقیقت یہ ہے کہ سیاسی لیڈران عورتوں کے بارے میں کچھ بھی کہیں لیکن ان کی حالت زار نہ عوامی سطح پر لوگوں کے شعور کو بیدار کرتی ہے اور نہ سرکاری اہل کاروں کے کان پر جوں رینگتی ہے۔ جس مذہبی گروہ سے وہ نفرت کرتا ہے اس کی عورتوں کو (اپنے لوگوں کے قبضے سے برآمد کرنے کے لیے وہ اپنی ہی برادری کے لوگوں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار نہیں اگر ان لوگوں کے خلاف زیادہ سخت اقدام کیا گیا تو اس کا نتیجہ بڑے پیمانہ پرقتل عام کی صورت میں نکلے گا۔ کیا ستم ہے کہ وہ ملک جس کے قیام کی سب سے بھیانک جسمانی ، ذہنی ، جذباتی اور ساجی قیمت پاکستان کا خواب دیکھنے والی عورتوں نے ادا کی ، اس ملک کے مقتدرین نے ان کے لیے وہ نہیں کیا جو ان کا فرض تھا۔ پاکستان میں قدم رکھنے کے بعد مختلف مہاجر کیمپوں میں پناہ لینے والی سینکڑوں لڑکیاں اور عورتیں جن بے پناہ جسمانی ، پنی اور روحانی اذیتوں سے گزریں۔ ان کی حالت زار کا تذکرہ ہندو اور سکھ مغویہ عورتوں کی بازیابی کے لیے لاہور میں ہندوستانی حکومت کی طرف سے تعینات ہونے والی کملا بنان پٹیل نے کیا ہے جنہوں نے 1947ء  سے 1952ء  کا زیادہ عرصہ لاہور میں گزارا۔ پاکستان کے مقتدرین نے عورتوں کے مسائل و معاملات کو نظر انداز کرنے کا جو رویہ پہلے دن سے اختیار کیا ، وہ نہ صرف یہ کہ جاری رہا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مذہب کے نام پر وہ زیادہ غیر منصفانہ اور جابندارانہ ہوتا گیا۔ اس حوالے سے اگر یہ بات کی جائے تو کسی کو ناگوار نہیں گزرنی چاہیے کہ گذشتہ پچپن برس سے پاکستانی عورت جس ابتلاء اور آزمائش میں مبتلا ہے اس کی بنیادی ذمہ داری پاکستانی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستانی سماج میں عورت کی سیاسی ، سماجی اور معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ مغربی پاکستان میں صدیوں سے قبائلی ، نیم قبائلی اور جاگیردارانہ ساج قائم تھا۔ اس وجہ سے بلوچستان ، سرحد اور سندھ کی عورت شد ید پس ماندگی کا شکار تھی جبکہ پنجاب کی عورت ان تینوں صوبوں کی نسبت بہتر صورت حال میں تھی۔ یہاں لڑکیوں کے لیے تھے جہاں اسکول اور کالج پائے جاتے تھے تعلیم اور طب کا شعبہ عورتوں کے لیے سب سے محفوظ خیال کیا جا تا تھا چنانچہ متوسط اور بالائی متوسط طبقے کی بیشتر پڑھی لکھی عورتیں انہی شعبوں سے وابستہ تھیں۔ ادھر سندھ کے ایک حصے میں ترک ون کر کے آنے والوں کے مخصوص ساجی اور تمدنی حالات کے سبب ، ب? طور خاص کر اپنی میں خواندہ اور نیم خواند و شہری عورت کا جماؤ ہونے لگا تھا۔ پاکستان ایک نیا ملک تھا اور یہاں کا ہر طبقہ نئے حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے اور ایک آزاد سماج میں اپنے حقوق اور اپنے فرائض کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ سر چشمہ اقتدار چونکہ ملک کے مغربی حصے میں تھا اس لیے یہاں کے مرد جمہوریت کے سفر کو آگے بڑھانے کی بجا? حصول ریاست کو اپنی منزل سمجھ کر مطمئن ہو گئے تھے اور اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف تھے ، ایسے میں عورتوں سے سیاسی طور پر فعال ہونے کی توقع کرنا عبث تھا۔ تاہم 1948ء میں عورتوں کے معاشی حقوق کے لیے بیگم شائستہ اکرام اللہ اور بیگم جہاں آرا شاہنواز نے آواز بلند کی اور بہت سیشن میں اس مسئلے پر بحث ہوئی۔ اس سلسلے میں ایک بل پیش ہونے والا تھا جسے میں وقت پر روک دیا گیا۔ اس صورت حال کے خلاف احتجاج کے لیے بیگم جہاں آرا شاہنواز کی سرکردگی میں لاہور کی سڑکوں پر سینکڑوں عورتوں نے جلوس نکالا اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند گی۔ اس احتجاج کا نتیجہ برآمد ہوا اور عورتوں کو وراثت میں شہری اور زری جائیداد ملنے کے حقوق حاصل ہو گئے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ آج بھی بیشتر خاندانوں میں عورتیں ان حقوق سے محروم رکھی جاتی ہیں۔
نام نہاد علماء اور مولویوں نے ابتدا ہی سے عورتوں کے حقوق کی قانونی اور آئینی راہ میں روڑے اٹکا?۔ عورتوں کے لیے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا کوٹہ 3 فیصد ہی رہا۔ مارکسی رجحانات رکھنے والی طاہرہ مظہر علی خان جیسی کچھ خواتین نے 1948ء میں لاہور میں انجمن جمہوریت پسند خواتین قائم کی۔ اس انجمن کے مطالبات میں مزدور اور ملازمت پیشہ عورتوں کے لیے کام کے مساوی تنخواہ، لڑکیوں اور عورتوں کے لیے تعلیم کی مساوی سہولتوں کا حصول اور ملازمت کے لیے نئے مواقع کی بات کی گئی تھی۔ اس انجمن کی دوسری شاخ کراچی میں برسوں بعد 1969ء میں قائم ہوئی۔
1948ء کے اوائل میں ہی پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی نے یہ محسوس کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد حاصل ہو جانے کے بعد سیاسی طور پر متحرک عورتیں ایک بار پھر گھر کی چار دیواری میں بے مقصد زندگی گزار رہی ہیں۔ اس وقت ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا تھا چنانچہ انہوں نے 1948ء کے ابتدائی مہینوں میں یہ فیصلہ کیا کہ پاکستانی عورتوں کو متحرک کرنا چاہیے۔ انہوں نے عورتوں کے لیے پاکستان ویمنز نیشنل گارڈ اور پاکستان ویٹر نیول ریز رو نامی دو ٹیم دفاعی تنظیمیں قائم کیں۔ یہ دونوں تنظیمیں حالانکہ وزیراعظم کی بیگم کی طرف سے اور سرکاری سرپرستی میں قائم کی گئی تھیں، اس کے باوجود رجعت پرست عناصر اور بہ طور خاص مولویوں کی طرف سے ان دونوں تنظیموں کی بے حد مخالفت کی گئی ، لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جب عورتوں کی ان تنظیموں کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی تو آخر کار پیتھلیل کر دی گئیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے 22 فروری 1949 کو کراچی میں خواتین کی ساری اور رفای اولا قائم کی ، اس نے ابتدائی دنوں میں عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کام کیا لیکن اس تنظیم کی بھی شدید مخالفت کی گئی حد تو یہ ہے کہ بیگم رعنا لیاقت علی اور ان کی ساتھی خواتین کو مجلس احرار کے مولوی حضرات برسر عام طوائف کہتے تھے، جماعت اسلامی، جمعیت علما? اسلام اور دیگر مذہبی تنظیموں نے بھی عورتوں کی ان تنظیموں کی شدید مخالفت کی ، اردو اخبارات نے اپنے کالموں اور کارٹونوں کے ذریعے اپوا کی اتنی مخالفت کی اور ان کے خلاف اتنی دشنام طرازیاں کیں کہ پڑھی لکھی ، ساجی سطح پر سرگرم، پردہ نہ کرنے اور کام کرنے والی عورت کو عمومی طور سے آوارہ سمجھنے کا رویہ راسخ ہونے لگا۔ اس رویے نے مغربی پاکستان میں متوسط طبقے کی عورتوں کو سیاسی طور پر تقریبا غیر فعال کر دیا اور اس نے تعلیم حاصل کرنے اور معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے شعبہ تعلیم با صحت کے شعبے میں چھوٹی موٹی ملازمت حاصل کر نے کو اپنی معراج سمجھا۔ ملک کے مشرقی حصے کی سیاسی صورت حال اس سے بالکل مختلف تھی۔ آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود اقتدار کا سر چشمہ مغربی حصے میں تھا جہاں سے مشرقی حصے میں رہنے والوں کے نام مختلف فرامین جاری کیے جاتے تھے اور وہ سلوک روا رکھا جا تا تھا جو نو آبادیوں کے باب میں آقاؤں کا ہوتا ہے۔ اقتدار میں شرکت سے محروی اور احساس بے بسی نے جب مشرقی حصے کے مردوں کو سیاسی طور پر بے چین کیا تو وہاں کی عورتیں بھی تیزی سے منظم اور متحرک ہوئیں اور بنگالی لڑکیاں ، طلبہ کی جمہوری تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ کو قومی زبان بنوانے کی تحریک میں ہمیں بنگالی لڑکیوں اور عورتوں کی کثیر تعداد حصہ لیتی ہوئی ، لاٹھیاں اور گولیاں کھاتی ہوئی اور گرفتار ہوتی نظر آتی ہے۔ ملک کے مشرقی حصے میں سیاسی بے چینی میں جیسے جیسے اضافہ ہوا، اس رفتار سے بنگالی عورتیں مختلف سیاسی تحریکوں میں سرگرم ہوتی گئیں۔ اس وقت مجھے لیلا مترا کی یاد آ رہی ہے جو پہلے طلبہ تعلیم میں سرگرم ہو گئیں اور پھر کسانوں کی ما کا تحریک میں پیش پیش رہیں اور گرفتار ہوئیں۔ وہ ان جرات مند پاکستانی عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے اس وقت کا انتہائی بھیا تک جسمانی اور جنسی تشد و سیا۔ جن کا شمالا حصہ جو کے چوہوں سے کمتر دایا گیا اور جن کے ساتھ و ظلم و ستم روا رکھا گیا کہ آخر کار لیلا نچلے دھڑ سے مفلوج ہوگئیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے موقف سے سرمو انحراف نہیں کیا اور سیاسی جدوجہد میں سرگرم ہونے والی دوسری پاکستانی عورتوں کے لیے استقامت کی ایک اعلی مثال ثابت ہوئیں۔ کچھ یہی معاملہ موتیا چوہدری کا بھی رہا جو آج بھی زندہ ہیں اور بنگلہ دیش میں سیاسی طور پر بہت سرگرم ہیں۔
کم مارچ 1971ء سے 16 دسمبر 1971ء کے سیاہ دنوں میں مشرقی پاکستان میں رہنے والی پاکستانی عورت آزمائش کے جن کڑے مرحلوں سے گزری اسے پڑھیے تو یقین نہیں آتا اور جب یقین آ جا تا ہے تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ 8 مہینے اور 16 دن کے دوران ڈھائی لاکھ مسلمان پاکستانی عورتیں جن کی ضمنی قومیت بنگالی تھی بے حرمت کی گئیں، ان میں سے لگ بھگ تمہیں ہزار عورتوں نے خودکشی کی ، ہزاروں سوزاک اور آتشک کا شکار ہوئیں، ہزاروں پہنی توازن کھو بیٹھیں، بین الاقوامی طبی اداروں کے ڈاکٹروں نے ایک لاکھ ستر ہزار اسقاط کرا?۔ اس سلسلے میں ملیکہ خان اور ڈاکٹر جیٹری ڈیوس کے بیانات رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ اس موضوع پر پروفیسر نیلما ابراہیم کی کتاب 'Ami Berangana Bolchhi' وہ شہادتیں اور تفصیلات فراہم کرتی ہے جنہیں پڑھنے کے بعد دوقومی نظریے اور پاکستان پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ 1947ء میں یا اس کے بعد ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں دو مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی عورتوں کو بے حرمت کر رہے تھے لیکن مشرقی پاکستان میں مسلمان پاکستانی عورتیں جن وردی والوں کی دہشت و بربریت کا نشانہ بنیں ، وہ کلمہ گو تھے، پاکستانی قومیت رکھتے تھے اور جن کا کام ان کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت تھا۔ یہ وہ عورتیں تھیں جنہوں نے بہ ذات خود یا جن کے گھر کے مردوں اور بزرگ عورتوں نے پاکستان کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں حصہ لیا تھا اور پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ ان ہی کے اکثریتی ووٹوں کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا اور اس اکثریت کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا۔ یہاں ان ہزاروں پاکستانی بہاری عورتوں کا ذکر کیا کرنا جو بنگالی عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے انتظام میں ۰۸ جوابی قلم کا نشانہ بنیں۔۔ ان بے زمین عورتوں کی بے حرمتی کا کوئی حساب رکھنے والا نہ تھا یوں سمجھیں کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی عورت اپنوں کے ہاتھوں جس بھیا یک آزمائش سے گزری ، آج اس کا تذکرہ تو دور کی بات ہے، کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ اس پر کلمہ گو پاکستانیوں نے کیاستم روار کھے۔ آج میں تاریخ کا ایک الم ناک حصہ ہے کہ مشرقی حصے کی سیاسی جدوجہد کو بڑھاوا دیتی ہوئی ہزار ہا ان پڑھ اور دیہاتی عورتوں نے ، پڑھی لکھی اور اشرافیہ کی لڑکیوں اور عورتوں نے ان گنت راتیں یوں گزار ہیں جب ان کی پیٹھ نے بستر کے آرام کا ذائقہ نہ جاتا۔ ان کے مرد جنگلوں اور کھیتوں میں اپنے حقوق کی جنگ لڑر ہے تھے اور باہر گلیوں میں سڑکوں پر وردی پوش بھیٹر یے گھومتے تھے۔  (جاری ہے)
 ان بھیٹریوں سے بچنے کے لیے وہ اپنے گھروں کے پچھواڑے بنے ہوئے تالابوں میں ساری ساری رات اپنی بیٹیوں اور چھوٹی بہنوں کا ہاتھ تھامے پانی سے گردن باہر نکالے کھڑی رہتی تھیں اور تالاب کا میٹھا پانی ان کے آنسوؤں سے مکین ہوتا تھا۔ 1970ء میں مشرقی حصے کے عوام کے خلاف جو ، پیانہ فوجی ایکشن ہوا، جس کا ایک حصہ بنگالی ادبیوں ، دانشوروں اور فنکاروں کا قتل عام بھی تھا، اس میں عورتیں بھی جان سے گئیں۔ چند مختصر جملوں میں یہ بات یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے مشرقی حصے کے کروڑوں عوام نے اپنے جمہوری حقوق کے حصول کے لیے فوجی آمریت کے خلاف جو عظیم الشان جدو جہد کی ، پاکستانی بنگالی عورت اس میں ایک فعال اور سرگرم حصہ دارتھی اور اس حصہ داری کی قیمت اس نے بے پناہ آزمائش کی شکل میں ادا کی۔ مغربی پاکستان کی عورت کی آزمائش کا رنگ دوسرا تھا، یہاں چند سرگرم اور فعال خواتین نے 1947ء سے 1957ء کا زمانہ مغویہ عورتوں کی بازیابی ، ترک وطن کرنے والوں کی آبادکاری اور چند سماجی اور رفاہی تنظیموں کے قیام میں صرف کیا۔ لیکن عمومی طور سے مغربی پاکستان کی عورت ابھی قیام پاکستان کے نشے میں سرشار تھی۔ اس کا سیاسی شعور بنگالی خواتین کی طرح پختہ اور پرورش یافتہ نہیں تھا اس لیے وہ مس فاطمہ جناح اوربیگم رعنا لیاقت علی خان کی تصویر میں دیکھ کر اور ان کی تقریر میں سن کر خوش اور مطمئن ہوتی ری۔ 1949ء میں منظور ہونے والی قرارداد مقاصد نے اس کے کتنے حقوق غصب کر لیے تھے، اس کا ابھی اسے انداز نہیں تھا، اسے بی شعور نہیں تھا کہ سیاست پر رفتہ رفتہ قدامت پسند اور رجعت پرست عناصر کی گرفت جس طرح مضبوط ہورہی ہے، اس کے نتائج اس کے لیے کتنے سنگین نکلیں گے۔ 1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین مرتب ہوا۔ اس میں عورتوں کو ووٹ کے دہرے حقوق ملے ، یعنی پاکستانی عورت عام انتخابات میں ووٹ ڈال سکتی تھی اور عورتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں بھی ووٹ ڈالنے کا حق رکھتی تھی۔عورتوں کے لیے شادی ، طلاق ، نان نفقہ اور بچوں کی تحویل نہایت اہم معاملات ہیں، اس بارے میں قانون سازی کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس راشد کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا جس نے 1956ء￿  میں اپنی رپورٹ پیش کر دی لیکن اس رپورٹ کی سفارشات کے بارے میں مولویوں نے اتنا شور مچایا کہ پیر پورٹ سرد خانے میں رکھ دی گئی۔ اس سلسلے میں سب سے پیش پیش مرحوم مولا نا احتشام الحق تھانوی تھے، جو اس کمیشن کے ایک رکن تھے اور جنہوں نے اس پر ایک طویل اورتفصیلی اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
جنرل ایوب خان کے زمانے میں جسٹس راشد کی رپورٹ پر ایک بار پھر غور ہوا اور اس رپورٹ کی سفارشات کو نظر میں رکھتے ہوئے 1961ء  میں عائلی قوانین کا اجرا ہوا۔ ان قوانین نے لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر مقرر کی ، مردوں کی دوسری شادی پر بڑی حد تک روک لگادی اور اس کے لیے پہلی بیوی کی تحریری اجازت لازمی شہری۔ ان ہی قوانین کے تحت نکاح اور طلاق کا اندراج لازمی شہرا اور نکاح نامے میں عورت کے طلاق کے حق کی شق بھی شامل کی گئی۔ طلاق کی صورت میں بچوں کی تحویل اور نان نفقہ کی ادائیگی کے معاملات بھی نسبتا بہتر اور عورتوں کے حق میں ہو?۔ عائلی قوانین نے مولویوں کے اندر شد پر غیظ وغضب کو جنم دیا اور پاکستانی عورت الزامات اور گندہ دہنی کی ایک نئی آزمائش میں ڈالی گئی۔ ایوب خان کا زمانہ ہو یا آج کا دور ، مولویوں کے اس
اس بات کہ کمزور اور کچلا طبقہ ، اگر اور کے معاملات ان کے دائرہ اختیار سے باہر نکل تو ان کی روزی روٹی اور حلوے مانڈے کا ہوگا جنرل ایوب کے زمانے عورتوں کو جہاںقدرے سکون ملا وہیں ان حقوق پر ایک کاری ضرب اس لگی جب 1962ء آئین ان سے براہ راست انتخابات کا حق چھین گیا جو انہیں 1956ء کے آئین میں گیا تھا۔ 1962ء  آئین میں یہ کہا گیا تھا کہ اسمبلیوں بیٹھے ہوئے مردوں کے ووٹ منتخب ہونے والی عورتیں ہی مرکزی یا صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں گی۔ اس طرح منتخب والی خواتین لیے ممکن نہیں رہا وہ میں عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر میں وہ تو خودصدر کے رحم گرم تھیں اور کی خلاف بات کرنا ان کے لیے ایوب کے زمانے میں بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو نے ایک فوجی آمر خلاف صدارتی امیدوار بنادیا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بنیادی جمہوریت یوں کہہ لیں کہ بے بنیاد جمہوریت ملک کی جا چکی تھی۔ جنرل ایوب کے خلاف تحریک چل رہی تھی اور صدارتی انتخابات میں ان خلاف ناظم الدین امیدوار تھے۔ اس مہم دوران خواجہ صاحب کا انتقال ہوگیا۔ فوری طور محترمہ فاطمہ جناح کو ان جگہ امید نامزد کیا پاکستان کے سیاسی افق پر پہلی مرتبہ ایک عورت نمودار ہوئی۔ فاطمہ جناح نے حزب اختلاف اس تحریک میں نئی جان ڈال دی۔ پاکستان اور مشرقی پاکستان میں لوگوں نے ان کی حمایت میں لاکھوں جلسے لیکن ایوب وزیروں کی دھاندلی اور بنیادی پرمنتخب ہونے والے کونسلروں کی بے شمیری نے فاطمہ کو ہرادیا۔ کی ہار سے صرف جمہوریت پسندوں کو ہی نہیں پاکستانی عورت حقوق تحریک بھی نقصان پہنچا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے دوران اسلام میں عورت کی سربراہی کو ناجائز قرار دینے کی ایک بھر پور تحریک چلائی گئی تو بہت سی عورتوں پر حقیقت حال عیاں ہوئی۔ اس وقت ان کی سمجھ میں یہ آیا کہ عائلی قوانین کے تحت چند حقوق دے کر ان سے ان کے تمام جمہوری حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ ان کے اندر بی شعور بھی بیدار ہوا کہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد دراصل اس عمومی جمہوری جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے جس میں مرد اور عورت برابر کے شریک ہیں۔
1971ء سے 1977ء تک کا دور پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا مختصر عرصہ ہے جس میں پاکستانی عورت کو سانس لینے، آگے آنے اور کاروبار زندگی میں زیادہ کھل کر حصہ لینے کا موقع ملا۔ 1973ء￿  میں جب ملک کا متفقہ آئین بنا تو اس میں پاکستانی عورتوں کو پاکستانی مردوں کے مساوی آئینی حقوق دیئے گئے۔ اس آئین کے آرٹیکل نمبر 35،27،25 اور 37 میں کہا گیا تھا:
1۔ تمام شہری قانون کے رو برو، مساویانہ حیثیت رکھتے ہیں اور مساد یا نہ قانونی تحفظ کے حق دار ہیں محض جنس کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیازی سلوک روانہیں رکھا جا? گا۔
2۔ کسی بھی شہری کو ، جو پاکستان کی سروسز میں تقرری کی اہلیت رکھتا ہے بخش جنس کی بنا پر اسے تقرری کے سلسلے میں امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جا? گا۔ 3۔ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ریاست ، شادی ، خاندان اور ماں کو تحفظ فراہم کرے گی۔ 4۔ ریاست اس بات کو یقینی بنا? گی کہ خواتین کو ان شعبوں میں ملازم نہ رکھا
جا? جو ان کی جنس سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے 1975ء￿  کو خواتین کا عالمی سال قرار دیا گیا اور اس سال ایک جمہوری حکومت کے زیر سایہ پاکستانی عورت نے سیاسی اور سماجی شعور کی طرف تیزی سے قدم بڑھایا۔ مجموعی طور پر یہ زمانہ پاکستانی عورت کی عزت نفس کی بحالی ، اس کی تکریم میں اضافے اور مختلف محاذوں پر اس کے استحکام کا زمانہ ہے۔
5 جولائی 1977ء￿  کو ایک منتخب جمہوری حکومت اور پاکستانی حزب اختلاف دونوں ہی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہو? جنرل ضیاء￿  الحق نے انتہائی شرمناک انداز سے اقتدار پر قبضہ کیا اور فرد واحد کی حاکمیت نے پاکستانی عوام کے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کو روند ڈالا۔ آئین معطل ہوا اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی مردوں اور عورتوں کے آئینی حقوق سلب ہو گئے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند عوام کے لیے یہ ایک سانحہ تھا لیکن پاکستانی عورتوں کے لیے اس روز سے ایک ایسی اندھیری اور دہشت ناک رات کا آغاز ہوا جسے ایک آمر نے بدترین بنیاد پرست اور رجعت پسند قوتوں سے مل کر مذہب کی آڑ میں ان پر مسلط کر دیا تھا، جس کا انہوں نے بھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ 24 ال آمریت کو سب سے زیادہ خوف سیاسی شعور رکھنے اور سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے والوں سے آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا قہر بھی سب سے زیادہ ان ہی لوگوں پر فوقتا ہے۔ جنرل ضیاء￿  کا زمانہ اس کی بہترین مثال ہے۔ ان ہی کے زمانے میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ پاکستانی جیلوں میں قید کی جانے والی ان عورتوں کو شدید جسمانی اذیتیں دی گئیں جو سیاسی جدوجہد کے الزام میں جیل گئی تھیں۔ پاکستان میں جنرل ضیاء￿  کو اسلامی روایات کا نقیب کہنے والوں کی آج بھی کمی نہیں ، ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جن کا دعوی ہے کہ یہ جنرل ضیاء￿  تھے جنہوں پاکستان میں چادر اور چار دیواری کا تقدس بحال کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا دوراقتدار، پاکستانی عورت کی کڑی آزمائش کا زمانہ ہے۔ اپنے عہد میں انہوں نے اسلام کے نام پر پاکستانی عورت کی راہ میں جو کانٹے بچا? تھے وہ آج تک اس کی راہ میں موجود ہیں اور اس کے تلوؤں میں چھے ہو? ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کے مطابق 1980ء￿  سے۔ سے پاکستان میں سیاسی کارکن عورتوں کو برسر عام اور حوالات یا جیل میں بدترین جسمانی اذیتیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ وہ دور ہے جب اخبارات کی لکھتے ہو? ڈرتے تھے، اس کے باوجود 11 مئی 1981ء￿  کے ڈان میں صفورانی کے بارے میں خبر چھپی جس کے بارے میں تایا گیا تھا کہ سول ہسپتال کراچی اور ڈسٹرکٹ ہسپتال تفضہ کے سرکاری ڈاکٹروں کے مطابق اس کے جسم کو جلتے ہوئے سگریٹ سے داغا گیا تھا۔ صفورانی کا قصور یہ تھا کہ اس نے جنرل ضیاء￿  کے خلاف سیاسی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ اس زمانے میں لاہور کے دو سیاسی کارکن جب گرفتاری کے خوف سے روپوش ہو? تو ان پر دباؤ بنانے کے لیے ان کی بیویاں گرفتار ہوئیں ، لاہور قلعے میں رکھی گئیں جہاں انہیں بجلی کے جھٹکے لگا? گئے اور انہیں بے آبرو کیا گیا۔ 4 دسمبر 1981ء￿  کے برطانوی اخباروں میں فرخندہ بخاری کو دی جانے والی جسمانی اذیتوں کی تفصیلات شائع ہوئیں۔ فرخندہ بخاری کو قلعے میں اس قدر اذیتیں دی گئیں کہ جب وہ لندن کے ہیتھرو ائر پورٹ پہنچیں تو ہوم ڈپارٹمنٹ کی خاتون کارکن نے ان کے جسم پر سگریٹوں کے داغ اور تشدد کے دوسرے نشانات دیکھ کر انہیں فورا سیاسی پناہ دے دی تھی۔
1979ء￿  میں کوڑے لگانے کی اسلامی سزا کا آرڈیننس جاری ہوا جس کے آرٹیکل (1)5 میں درج تھا کہ مرد کو کھڑا کر کے اور عورتوں کو بٹھا کر کوڑے لگائے جائیں گے اور اس آرڈینس کے آرٹیکل (5)D میں درج تھا کہ قیدی عورت اگر حاملہ ہے تو سزا پر عمل بچے کی پیدائش پر یا اسقاط حمل کے دو ماہ بعد تک ملتوی کر دیا جا? گا۔ اس آرڈینینس کے تحت روزنامہ جنگ کی 25 جولائی 1981ء￿  میں چھپنے والی خبر کے مطابق پہلی مرتبہ کسی عورت کو کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔ اس کے بعد اس نوعیت کی سزاؤں کی خبر میں تواتر سے آئیں۔
جنرل ضیاء￿  اور ان کے حامیوں کے لب چادر اور چار دیواری کے تقدس کا ذکر کرتے نہیں تھکتے تھے، اس دور میں صحافیوں کی تحریک چلی تو کراچی کی خاتون صحافی لالہ رف حسین اس تحریک میں حصہ لینے کے جرم میں اپنے بچے کے ساتھ گرفتار کی گئیں اور روتے تک کراچی جیل میں قید ہیں۔ جنرل ضیاء￿  کے عہد کے ایک اہم مسلم لیگی لیڈر ملک قاسم مرحوم کے کئی بیانات ریکارڈ پر ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں صرف وکیلوں ، مزدوروں ، طالب علموں کو ہی نہیں مارا اور اذیتیں دی گئیں۔ انہوں نے عورتوں کو سڑکوں پر پینا۔
باتیں خلاف کوئی بات نہیں کی صرف اپنے حقوق بازیابی کے لیے آواز بلند تھی۔ جمہوریت کی اور آئین کی بحالی کے بات کی تھی۔ اس میں خواتین ہونے جسمانی اور جنسی تشدد کے حوالے سے چوہدری غلام قادر اور اعتزاز احسن کے بھی کشا ہیں۔
پاکستان کو اسلام قلعہ میں کرنے والی عورتوں پر کچھ گزری، چادر اور چار دیواری کے محافظوں نے کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، کی تفصیل میں جانے کے دفتر کے دفتر کے نمائندوں کے حوصلے اتنے بڑھے ہوئے کہ بیگم نصرت بھٹو، بیگم ولی اور بے نظیر بھٹو بھی پہنی جسمانی اذیتوں محفوظ نہ رہ سکیں۔ ضیاء￿  الحق کے میں عورتوں جس جدوجہد آغاز ہوا وہ محض اپنے کے لیے نہیں تھی یہ عمومی سیاسی جدوجہد سے مکمل طور پر ہوئی تھی یہی وجہ ہے ہمیں 1983ء￿  کی ایم آرڈی تحریک میں سندھیانی تحریک 256 عورتیں گرفتاریاں دیتی ہوئی اور جیلوں میں سزائیں کافتی اور اس سے بہت ہاری تحریک عورتیں گرفتار ہوتی اور جیل بھکتی ملتی ہیں ای زمانے میں ہمیں لکھپت جیل ، شیخوپورہ جیل، کراچی۔ جیلوں میں بہت کی سیاسی قیدی عورتیں نظر آتی ہیں ہ ضیاء￿  دور کے سور ما ناموس مملکت اسلامیہ تھے جو پاکستان تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں کو شاہی قلعے گئے جہاں ان ساتھ بدتر میں جسمانی اور جنسی تشدہ کیا یہ وہ ہے جب پیٹھ مری سفید والی تھی ، مائی چین سفیداں ، اماں پٹھانی شاہی قلعے میں تشدد برداشت کرتے ہوئے آزمائش نئی منزلوں سے گزرتی نظر آتی ہیں۔ فریدہ عاہدہ ملک، مسٹر قیوم شاہد جنہیں فرخندہ بخاری افضل توصیف مسز آفتاب۔ قلعہ میں جانے والیوں کے ناموں کی ایک ہے بنیادی حقوق کی کے لیے پولیس تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی پارس جان ، زبیدہ ملک ، بیگم نسرین راؤ، ناہید سعید ، سرداراں بیگم اور بیگم قد مر قر یشی ہیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب سندھ میں جنگ شاہی کے قریب دو عورتوں کی بہانہ ہلاکت پر سندھ بھر کی عورتوں نے شدید احتجاج کیا۔ اس دور کی تاریخ کے صفحے پاکستانی عورتوں کی آزمائشوں کا سرنامہ ہیں ، ان کی اذیتوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
عورتوں کی آزمائش کا ایک پہلو تو وہ ہے جس کا شکار سیاسی طور پر متحرک عورتیں ہوئیں، لیکن عام شہری اور بہ طور خاص دیہی عورت اپنے گھروں ، کھیتوں ، سڑکوں اور بازاروں میں محفوظ نہ رہ سکی۔ جنرل ضیاء￿  کی آمریت کے زمانے میں جب چادر اور چار دیواری کا ڈھول پیٹا جارہا تھا، اس دور میں پاکستان کی مظلوم دیہی عورت پر بالادست طبقوں کے افراد وہ شرمناک مظالم ڈھا رہے تھے کہ ان کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں ، نواب پور ، لطف پور، قصور ، ملتان ، خان پور می شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے نام نہیں ، پاکستانی قوم کے سینے کے رستے ہو? ناسور ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بے گناہ اور بے کس، بے آسرا اور بے زبان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کو جانوروں کی طرح تھیٹ کر ان کے گھروں سے باہر لایا گیا، ان کے لباس تار تار کیے گئے اور پھر عالم برہنگی میں انہیں ان گلیوں میں پھرایا گیا جو ان کی عفت وعصمت کی گواہ تھیں۔ ان بر ہنہ جلوسوں کے ناظرین انہی عورتوں کے باپ، شوہر، بھتیجے اور پڑوی تھے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کے لیے آفتاب سوا نیزے پر آیا اور جن پر قیامت کبری گزرگئی۔ یہ وہ تھیں جنہیں احساس ذلت اور احساس بے بسی نے دنوں اور ہفتوں گویائی سے محروم رکھا اور جب ان کے مرد ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر درمیان میں آئے تو انہیں بندوقوں کے ہوں سے مارا گیا اور علاقے کے تھانوں میں رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا گیا۔ یہ 1947 نہیں تھا کہ سارا الزام ہندو اور سکھ بلوائیوں کے سر ڈال دیا جائے ، یہ پاکستانی اور مسلمان عورتیں تھیں، ان کے مجرم پاکستانی مسلمان مرد تھے ، حکومت پاکستان کے پاس اب اسلحے کی کوئی کمی نہیں تھی ، اس اسلحے کی قوت پر اس نے کچھ عرصہ پہلے مشرقی پاکستان کی جمہوری جدو جہد کو کچلا تھا اور 1977ء￿  میں اقتدار عوامی نمائندوں سے چھینا تھا۔ تمام وسائل رکھنے کے باوجود وہ پاکستانی شہریت رکھنے والی عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ جنرل ضیاء￿  نے 5 جولائی 1977ء￿  کو پاکستان کے جس آئین کو معطل کیا اس میں پاکستانی عورت کو پاکستانی مرد کے مساوی حقوق دیے گئے تھے ، اس کی جگہ 1979ء￿  میں ضیاء￿  نے چار اسلامی تعزیراتی قوانین نافذ کیے جن میں حدود آرڈینس بھی شامل ہے۔ جس سے عورتوں کے حقوق پر کاری ضرب لگی۔ حدود آرڈینینس کا اجرا کر کے عورتوں کے حقوق کو سلب کیا گیا۔ ان قوانین کے تحت حکومت پاکستان کا اسلام کسی ایسی مظلوم عورت کو تحفظ دینے سے قاصر ہے جو باختی سے عصمت دری کا شکار ہوئی ہو کیونکہ عورت ہونے کی وجہ سے اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اس کی تنہا گواہی اس مرد کوسز انہیں دلاسکتی۔ 1984ء￿  میں قانون شہادت کا اجرا کیا گیا جس میں عورت کا حق شہادت محدود کردیا گیا، مردوں اور عورتوں کی شہادت کے درمیان تمیز قائم کر کے عورتوں کے خلاف واضح امتیازی رویہ اختیار کیا گیا۔ شریعت بل نے عورتوں کے دیگر حقوق سلب کر لیے۔ نویں ترمیمی بل کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ ان قوانین کے تحت زنا اور عصمت دری میں کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ عورتوں کے خلاف ضیاء￿  الحق دور میں جو امتیازی قوانین نافذ کیے گئے اس کا تفصیلی جائزہ انٹریشنل جیورسٹ کمیشن رپورٹ میں لیا گیا ہے، جس کو پڑھے بغیر ان قوانین کے امتیازی رویے کا انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان میں فوجی آمریت اور بنیاد پرست قوتوں نے جب اسلام کی آڑ لے کر پاکستان میں جمہوری روایات کو کچلنے اور خواتین کو بے دست و پا کرنے کی بھر پور مہم کا آغاز کیا تو بعض خواتین تنظیموں کے علاوہ انفرادی طور پر سرگرم عورتوں نے اس صورتحال پر سر جوڑ کر سوچنا شروع کیا۔ چنانچہ تمام خواتین تنظیموں کا ایک متحدہ محاذ عمل ، ویمنز ایکشن فورم WAF وجود میں آیا جس میں وکالت ، صحافت، ادب ،تعلیم اور دوسرے پیشوں سے وابستہ متعدد خواتین نے پاکستانی عورتوں اور مردوں کو اپنے خلاف بننے
والے امتیازی قوانین کے نتائج سے آگاہ کرنے ، حدود آرڈینینس کے خلاف احتجاج کرنے اور آمریت اور بنیاد پرستی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عہد کیا اور میدان میں آ گئیں۔ 13 فروری 1983ء￿  کا دن پاکستانی عورتوں کی تاریخ کا ایک اہم اور ان کے لیے ایک نئی آزمائش کے آغاز کا دن ہے جب انہوں نے کھل کر آمریت کا سامنا کیا اور امتیازی قوانین کے خلاف جلوس نکالا۔
یہ وہ زمانہ ہے جب متعدد شہروں میں عورتوں کے احتجاجی جلوسوں پر بے دریغ لاٹھی چارج ہوا۔ پولیس کے سورماؤں نے انہیں بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا، ان کے کپڑے پھاڑے گئے، انہیں گندی گالیاں دی گئیں، انہیں گرفتار کر کے حوالات اور جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس زمانے میں پاکستانی عورت جن کڑی آزمائشوں سے گزری اور نام نہاد اسلامی قوانین کی جس کند چھری سے ذرع کی گئی اس کے ایک نہیں سینکڑوں واقعات میں لیکن صفیہ بی بی نامی اندھی لڑکی کا مقدمہ ضیاء￿  الحق برانڈ اسلامی عدل کا شاہ کار ہے۔ اس لڑکی کی باپ اور بیٹے نے عصمت دری کی جس کے نتیجے میں وہ ایک بچے کی ماں بنی۔ اس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والے باپ اور بیٹے تو چار گواہوں کے نہ ہونے کی بناء￿  پر رہا کر دیے گئے لیکن صفیہ بی بی چونکہ بچے کی ماں بنی تھی اس لیے اس پر زنا ثابت تھا چنانچہ اسے حکم نامنہ زنا کے تحت سنگساری کی سزا سنادی گئی۔ پاکستانی عورت کی آزمائش کی بات کرتے ہو? مجھے 2 اگست 1999ء￿  کو پاکستان کے ایوان بالا سے آنے والی وہ خبر یاد آتی ہے جس کے مطابق سینیٹ کے اراکین کی غالب اکثریت نے خواتین پر تشدد کی مذمت میں تیار کی جانے والی قرار داد کو نہ صرف یہ کہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ اسلام اور شریعت کی بات کرنے والوں نے لاہور میں حقوق انسانی کی معروف کارکن اور وکیل حنا جیلانی کے دفتر میں دن دھاڑے ہونے والے سمیعہ سرور کے قتل پر احتجاج کو خرافات قرار دیا۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے ایوان بالا میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کے خلاف پیش کی جانے والی ایک قرارداد کی مخالفت کرنے والوں میں پاکستان کا خواب دیکھنے والے
اقبال کے صاحبزادے (ر ) جسٹس جاوید اقبال بھی تھے اور صبح و شام جمہوریت اور مساوات کی مالا جپنے اور سوشلسٹ انقلاب کے نام پر ترک وطن کرنے والے اجمل خٹک بھی۔ اس قرارداد کے مخالفین میں وہ بھی تھے جن کا کہنا ہے کہ عورتوں کو اسلام سے زیادہ حقوق کسی مذہب ، شریعت اور قانون نے نہیں دیئے اور وہ بھی جنہیں اپنی لبرل سیاست پر ناز ہے۔
2 اگست 1999ء￿  کا دن پاکستانی عورت کی آزمائش کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جا? گا۔ اس روز پاکستانی سینیٹ کے چیئر مین جناب وسیم سجاد سے لے کر اس کے ایک عام رکن تک نے یہ ثابت کیا کہ اسے پاکستانی عورتوں کی حالت زار سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں۔ حنا جیلانی اور عاصمہ جہانگیر کے دفتر میں سمیعہ سرور کاقتل جس قدر سفاکانہ انداز میں ہوا اور اس کے بعد قاتلوں کی گرفتاری کی بجا? ، قاتلوں کی طرف سے حنا اور عاصمہ پر جس وضع کے مقدمے قائم کیے گئے ، سمیعہ سرور کے قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کی راہ میں جو رکاوٹیں ڈالی گئیں، یہ تمام معاملات اس بات کا اشارہ ہیں کہ آج پاکستان میں آئین اور قانون کی بالا دستی نہیں پائی جاتی بلکہ ہم بنیادی طور پر ایک قبائلی نظام میں زندہ ہیں۔ سمیعہ سرور کے قتل کا سب سے اندوہ ناک پہلو یہ ہے کہ اس کا قتل اس کی اعلی تعلیم یافتہ ماں اور چچا کی موجودگی میں اور ان کی ایما پر ہوا۔ قبائلی رسوم و روایات کے نام پر صوبہ سرحد میں جس طور اس قتل کو جائز اور درست قرار دیا گیا اور تمام سیاسی پارٹیاں اس قتل کی طرف سے جس طرح آنکھیں بند کیے بیٹھی رہیں
وہ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کی منافقت کی اعلی مثال ہے۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہو? پاکستان کے ایوان بالا کے ان اراکین کے چہرے اس وقت میری نگاہوں میں گھوم رہے ہیں جن کے چہروں پر داڑھیاں نہیں تھیں، جن کے مغربی لباس پر بھی ممکن نظر نہیں آتی ، جن کا انگریزی لب و لہجہ سن کر اہل مغرب بھی ان کی فصاحت و بلاغت کی داد دیتے ہیں اور جن کے بائیو ڈیٹا میں مغرب اور پاکستان کی یونیورسٹیوں کی استاد کا احوال لکھا ہے۔ ان لوگوں نے پاکستانی عورت کو اس کے جائز حقوق کی آئینی اور قانونی لڑائی میں جس طرح پیچ منجدھار میں تھوڑا وہ ایک شرم ناک باب ہے۔
پاکستانی عورتوں کی آزمائش کی بات کرتے ہو? کراچی کا ذکر کرنے کو بھی چاہتا ہے جو پاکستان کا سب س