افغانستا ن میں حالیہ تبدیلی کی کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا ، شاہ محمود قریشی

افغانستا ن میں حالیہ تبدیلی کی کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا ، شاہ محمود قریشی

اسلام آباد :افغانستان میں حالیہ تبدیلی حیران کن ہےتاہم صورتحال ہر طرح سے پچیدہ ہے۔ 

 اسلام آباد میں افغانستان کی صورتحال پر منعقدہ 6 ملکی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والی پیش رفتوں نے ہمارے خطے کو عالمی منظر نامے پر اجاگر کیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے یہ واضح ہے کہ کوئی بھی افغان سیکیورٹی فورسز کے پیچھے ہٹنے اور حکومت کے خاتمے سمیت افغانستان کی صورتحال میں حالیہ تبدیلی کی توقع نہیں کرسکتا تھا تمام گزشتہ جائزے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔

 انہوں نے کہا کہ جس طرح صورتحال تبدیل ہوئی اس کے افغانستان، ہمارے خطے اور دنیا پر بھی اثرات ہوں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان پیش رفتوں کی فوری اور غیر متوقع نوعیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات اہم ہے کہ بڑے پیمانے پر خونریزی نہیں ہوئی ساتھ ہی طویل تنازعات اور خانہ جنگی کے امکانات ٹل گئے۔

انہوں نے کہا کہ کم از کم اب تک بہت زیادہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کا انخلا نہیں ہورہا تاہم ہر طرح سے صورت حال پیچیدہ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ البتہ ایک چیز یقینی ہے کہ ہم سب افغانستان میں ایک تبدیل شدہ حقیقت دیکھ رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان نے عبوری حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا ہے ہم نے اس پیش رفت کو نوٹ کرلیا ہے، ہم اُمید کرتے ہیں کہ سیاسی صورتحال جلد از جلد مستحکم ہو کر معمول کے مطابق ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی صورتحال پرانی عینکیں پھینکنے  نئی بصیرت کی ترقی اور ایک حقیقت پسندانہ  عملی نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھنے کا تقاضہ کرتی  ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوششوں کا مرکز افغان عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے جو 40 برسوں سے جاری تنازعات اور عدم استحکام کے باعث بہت زیادہ متاثر ہوئے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں ہوئی حالیہ پیش رفت کے تناظر میں اہم ترجیحات انسانی بحران کو روکنا ہے جو افغانوں کی مشکلات بڑھا سکتا ہے ساتھ ہی ملک میں معاشی بدحالی کو روکنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انسانی بحران کو روکا جائے اور معاشی استحکام کی یقین دہانی کرائی جائے تو امن مضبوط اور بڑے پیمانے پر انخلا کو روکا جا سکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس ’اہم موڑ‘ پر عالمی برادری کے بڑھتے ہوئے رابطوں کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں نئی سفارتی اور بین الاقوامی موجودگی افغان عوام کو یقین دلائے گی اور اقوامِ متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کی جانب سے امداد کی فوری فراہمی اعتماد سازی کے عمل کو تقویت بخشے گی۔

وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ افغانستان کی اس کے مالی وسائل تک رسائی معاشی تباہی کو روکنے اور معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں ’اہم‘ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آگے بڑھنے کا راستہ نکالنے پر اتفاق کیا جو مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے اور تازہ ترین پیش رفت سے پیدا ہونے والے مواقع کا ادراک کرنے میں مدد دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشاورت نے مندرجہ ذیل مسائل کو اجاگر کیا جس کے لیے افغانستان میں بدلتی صورتحال کے مطابق ایک مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی

وزیر خارجہ نے زور دیا کہ ’پرامن، مستحکم، خوشحال اور باہم منسلک خطے کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان کو اس آزمائشی وقت سے گزرنے اور اپنی مکمل صلاحیتوں کو سمجھنے کے قابل ہونا چاہیے۔

وزیر خارجہ نے پڑوسی ممالک کے پلیٹ فارم کو باقاعدہ مشاورتی طریقہ کار میں تبدیل کرنے کی تجویز دی جس میں مستقبل میں افغانستان کو بھی مدعو کیا جانا چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی اس فورم میں شرکت وہاں پائیدار امن اور استحکام کے لیے ہمارے مشترکہ مقاصد کے حصول میں اس کی تاثیر کو بڑھا دے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست حصہ ہے، بین الاقوامی برادری کے لیے ہماری اجتماعی آواز پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کے اپنے پیغام کو اپنے اور اپنے ہمسایے کے ساتھ امن کو تقویت دے گی۔