روم یونی ورسٹی میں خطاب

Dr Zahid Munir Amir, Pakistan, Lahore, Naibaat News Paper

میں ابھی ترکی اور یونان کے سفر سے آرہاہوں ۔میرے اس سفر کی ترتیب میں ایک تاریخی نسبت بھی ہے۔ کہاجاتاہے کہ قدیم اٹلی ،یونانیوں کی یادگارہے۔ ان کی آبادکردہ بستیوں میں وہ ریاست بھی شامل ہے جسے آج نیپلز یا یہاں کی عام زبان میں نیپولی کہتے ہیں، جہاں قدیم زمانے سے علوم مشرقی کی تدریس کا سلسلہ جاری ہے اورمیں اپنے اس سفر میں جہاں جانے کا ارادہ بھی رکھتاہوں۔ترکی کے حالیہ سفر سے میری اس منزل کی نسبت یہ بھی ہے کہ ترکی کے مشہور سلطان عالی شان   Magnificient) (Sultan the نے جب باسفورس پر پل بناناچاہاتھا تواٹلی کے عظیم فن کار مائیکل اینجلو کو اس کا ڈیزائن بنانے کی دعوت دی تھی ۔میرے لیے اٹلی مائیکل اینجلوکااٹلی ہے ۔لیونارڈوڈا ونچی(Leonardo de Vinci)کا اٹلی ہے، جس نے دنیاکو مونالیزاکی مسکراہٹ سے آشناکیا ،گلیلیوکا اٹلی جس نے موت کو گلے لگا کر سچائی کا علم بلندکیا ،مارکوپولوکااٹلی ہے جس نے دنیاکومشرق سے روشناس کرایااور کولمبس کا اٹلی ہے جس نے نئی دنیاامریکاسے متعارف کرایا،دانتے کااٹلی ہے جس نے ڈیوائن کامیڈی لکھ کر عالمی ادب کومتاثرکیا۔ مشہورانقلابی فلسفی مازنی کا اٹلی ہے ،جسے اقبال نے اپنی ایک نظم میں یادکیا اور اٹلی کو دعادیتے ہوئے کہا    ؎
ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو 
جہازپرسے تمھیں ہم سلام کرتے ہیں 
میں خوش ہوں کہ میں اس وقت نیپلز، وینس، فلورنس، میلان اور خودروم جیسے علمی مراکزکے وطن میں ہوں ۔ ہمارے قومی شاعرعلامہ اقبال نے اطالوی قوم کو ایک زندہ، توانااورتابندہ قوم قراردیا۔وہ اٹلی تشریف لائے۔انھوںنے ۶۲؍نومبر۱۳۹۱ء کو اٹلی کی رائل اکیڈیمی میں لیکچر دیا۔مسولینی نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔یہ ملاقات ہوئی اور اقبال نے مسولینی کو مشرق کی طرف رجوع کا مشورہ دیا ۔دنیاکے مسلمانوں سے ربط و تعلق بڑھانے کے لیے اقبال نے مسولینی کو مشورہ دیاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان طالب علموں کو اٹلی بلایاجائے۔ انھیں تعلیم اور رہائش کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس طرح مشرق اور مغرب کا باہمی فاصلہ کم کیاجاسکتاہے ۔مشرق اور مغرب کے فاصلوں کو کم کرنے کی ضرورت سے کون صاحب ہوش انکارکرسکتاہے ۔راقم اپنے دورے سے اسی ضرورت کی طرف متوجہ کرناچاہتاہے ۔
مسولینی نے جب اقبال سے کوئی اچھوتا مشورہ طلب کیاتو اقبال نے کہاکہ شہروں کی آبادیاں مقررکرکے انھیں ایک خاص حدسے نہ بڑھنے دیاجائے۔ اس کے بعد نئی بستیاں آبادکی جائیں۔ مسولینی نے اس کا سبب دریافت کیاتو اقبال نے کہاکہ شہرکی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے اس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی کم ہوتی جاتی ہے اورثقافتی توانائی کی جگہ محرکاتِ شر لے لیتے ہیں ۔اقبال نے اس موقع پر یہ وضاحت بھی کی کہ یہ میراذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ میرے پیغمبرؐ نے تیرہ سو سال قبل یہ مصلحت آمیزہدایت فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حدسے تجاوزکرجائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کے بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے ۔ مسولینی یہ سن کر کھڑا ہو گیا اور دونوں ہاتھ زور سے میزپرمارکربولاکہ What an excellent idea 
اقبال نے مسولینی کے بارے میں ایک نظم بھی لکھی جو ان کے اردوکلام کے بہترین شعری مجموعے’’ بال جبریل‘‘ میں شامل ہے۔اس نظم میں انھوںنے زندگی کے نت نئے پہلووں کی دریافت اور تخلیقیت پرزوردیاہے جو ان کے خیال میں حیاتِ انسانی کی بقااور ترقی کی ضامن ہے۔ اسی کو وہ ذوقِ انقلاب اور اسی کو قوموں کے شباب سے تعبیرکرتے ہیں۔ ندرتِ فکروعمل ہی نے اطالیہ کی زندگی میں انقلاب پیداکیا ،جس سے اقبال مسرت ناک حیرت کا شکارہوکر فارسی کے ایک شاعر انوری کاایک مصرعہ اقتباس کرتے ہیں       
اینکہ می بینم بہ بیداری است یارب یابخواب 
کہ اے خدامیں یہ جو کچھ دیکھ رہاہوں کیا یہ حقیقت ہے یا خواب کاکوئی منظرہے…؟وہ سمجھتے ہیں کہ قوموں کو لیڈر زندہ کردیتے ہیں۔ اور قوموں کی زندگی میں لیڈرزکی حیثیت وہی ہوتی ہے جو موسیقار کے ہاتھوں میںمضراب کی ہوتی ہے ۔مضراب جب سازکے تاروںکو چھوتاہے تو سازسے نغمے اُبلنے لگتے ہیں ۔انھوںنے اطالیہ کی لیڈرشپ کی نگاہوں میں آفتاب کی شعاع کو چمکتے دیکھاتھا ۔ بلکہ ان کے ہم وطنوں نے ان کے ایسے خیالات کو خوش گمانی پر محمول کیاتو انھوںنے اس بات پر اصرارکیا۔یہ الگ بات ہے کہ بعدکی عالمی سیاست نے جہاں اٹلی کو اعتدال کی راہ پر گام زن کیا وہاں اٹلی اور مسولینی کے مداح ،محمداقبال بھی مسولینی کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبورہوگئے  ۔  
اقبال، یہاں کے اہل علم سے ملے، تاریخی مقامات کی سیر کی ،وہ اٹلی اور اٹلی کے حسن وجمال سے اس قدر متاثرتھے کہ اپنی زندگی کے باقی دن جرمنی یا اٹلی میں گزارنے کی خواہش کرتے رہے ۔ اٹلی سے ہمارے علمی روابط کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد استواررہا اور میں اس وقت روم  یونی ورسٹی میں آپ سے مخاطب ہوں، اسی روم میں پچاس کی دہائی میں پاکستان کی قومی زبان اردو پڑھائی جاتی رہی ہے۔ ریڈیو روم سے اردو کی نشریات پیش کی جاتی رہی ہیں۔ آپ کے اس ادارے سے ارودمیں تحقیق کرنے والوں کو ڈی لٹ (ڈاکٹرآف لٹریچر)کی ڈگری دی جاتی رہی ہے۔ ہمارے اردوکے ایک ممتازمحقق ڈاکٹر اقتدا حسن کو ان کے ۵۶۹۱ء تک کے مطبوعہ تحقیقی کام کی بناپر۷۶۹۱ء میں آپ کی اس یونی ورسٹی نے ڈی لٹ کی ڈگری دی پھر۶۶۹۱ء سے ۳۷۹۱ء تک کے کام کی بناپر انھیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی دوسری ڈگری بھی دی گئی۔ وہ اس یونی ورسٹی سے اردواور ہندی میں ڈی لٹ کی ڈگری پانے والے برصغیر پاک و ہندکے پہلے محقق تھے ۔  
ہمارے ملک کے ایک اورنام ور ادیب اور براڈکاسٹر اشفاق احمد صاحب کم و بیش تین سال تک روم میں تدریس اردوکے فرائض انجام دیتے رہے ۔انھوںنے اپنی تصانیف اور گفتگووں میں اپنے  اٹلی کے زمانہ قیام کا ذکرکیاہے۔انھوںنے یہاں کے بارے میں’’ سوادرومۃ الکبریٰ‘‘ کے عنوان سے اپنی یادیں بھی محفوظ کی ہیں ۔(یہ تفصیلات سن کر وہ لوگ بہت حیران اور خوش ہوئے ۔میںنے انھیں بتایاکہ) اشفاق صاحب چونکہ میڈیاکی ایک مقبول شخصیت تھے اس لیے اٹلی کے بارے میں ان کے بیان کردہ واقعات ہمارے عام لوگوں کو بھی معلوم ہیں، مثلاً انھوں نے یہ بات بیان کی کہ ایک بار ٹریفک کے کسی قانون کی خلاف ورزی کے حوالے سے انھیں روم کی عدالت میں طلب کرلیاگیا۔وہ عدالت میں حاضرہوئے تو ایک دم’’ ٹیچران کورٹ‘‘ کی صد بلند ہوئی اور سب لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ یوں ان کی زبان سے یہاں کے معاشرے اور مملکت کے بارے میں اچھے جذبات ہمارے لوگوں تک پہنچے ہیں۔
اشفاق صاحب۲۵۹۱ء سے ۴۵۹۱ء تک روم میں اردو پڑھاتے رہے۔وہ جب نئے نئے یہاں آئے تو زبان کی اجنبیت سے پریشان تھے ایک روز کسی پارک میں افسردہ واداس بیٹھے تھے کہ ایک اطالوی بچے نے ان کی جانب گیند اچھال دی اور اس کا اطالوی نام بھی لیا۔یہ اطالوی زبان کا پہلا لفظ تھا جو اشفاق صاحب نے اس بچے کی زبان سے سیکھا،یہی بچہ ان کی اداسی دورکرنے کا باعث بنا۔وہ اس بچے کو اٹلی میں اپنا پہلا استاد کہاکرتے تھے، بعدمیں توانھوںنے روم یونی ورسٹی سے اطالوی زبان میں ڈپلومہ بھی کیااور اس میں اتنی استعدادپیداکرلی کہ وہ اطالوی ادب کا مطالعہ بھی کرسکتے تھے اور اس زبان میں اہل علم سے تبادلہ خیال بھی کرلیاکرتے تھے۔اس دوران وہ شام کے اوقات میں ریڈیوروم کی اردو سروس سے اردو میں خبریں بھی پیش کیاکرتے تھے۔ انھوںنے یہاں کی فلمی دنیاسے بھی ربط ضبط پیدا کر لیا تھا وہ یہاں کے فلمی مرکز’’چینی چتا‘‘ جایاکرتے تھے اور وہاں فلم سازی کی کلاسوں میں بھی شرکت کرتے رہے۔یہ زمانہ تھا جب دنیاپاکستان کی جانب ایک ابھرتی ہوئی زندہ و بیدارقوم کی حیثیت سے دیکھ رہی تھی اور یہ وطن دنیاکی امیدوں اور آرزووںکامرکز بناہواتھا ۔اشفاق صاحب نے اپنی یادداشتوں میں لکھاہے کہ روم میں خواب بہت آتے ہیں وحشت خیز، کربناک،دلچسپ پرلطف…میں بھی یہاں ایک خواب لے کر آیاہوں …اٹلی اور پاکستان کے درمیان علمی روابط کی استواری کا خواب۔ روم میں تدریس اردوکی بحالی کا خواب۔ پنجاب یونی ورسٹی اور روم یونی ورسٹی میں اساتذہ اور طالب علموں کے باہم تبادلے کا خواب…میں یہاں کوئی مطالبہ لے کر نہیں آیا ،مجھے یاپاکستان کو آپ سے کچھ نہیں چاہیے بلکہ تدریس اردوکے لیے آپ کو جو سہولت درکارہو ،میری یونی ورسٹی آپ کو پیش کرنے کے لیے تیار ہے ۔مجھے پوری امیدہے کہ میراآج کا یہ دورہ اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا اور پنجاب یونی ورسٹی اور روم یونی ورسٹی کے درمیان گم شدہ رشتے بحال ہوجائیںگے۔ان جذبات کے اظہار میں میں اکیلا نہیں ہوں آپ میری آوازکوپنجاب یونی ورسٹی اور پوری پاکستانی قوم کی آوازسمجھیں۔میں آپ کی جانب سے اپنی اس دعوت کے جواب کامنتظررہوں گا۔
روم یونی ورسٹی کی اس محفل کے شرکا ان خیالات کے اظہارسے بہت خوش ہوئے ۔ڈین صاحبہ اور دوسرے اساتذہ نے راقم کی تجویزکا خیرمقدم کیااور کہاکہ آپ دونوں جامعات کے درمیان ایم اویو کا ایک مضمون جو آپ چاہتے ہوں بناکر بھیج دیں، ہم اس سلسلے میں اپنی یونی ورسٹی کی طرف سے توثیق کردیں گے ۔برسوں بلکہ عشروں کے بعد روم یونی ورسٹی میں تدریس اردوکے اس چراغ کے روشن ہوجانے کا امکان میرے دورے کی ایک بڑی کامیابی تھا۔