ناقص العقل…

ناقص العقل…

دوستو،ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کی بیشتر لڑکیاں آج بھی امتحان میں ناکام ہوجانے کی وجہ اپنی کم تر ذہانت اور کند ذہنی کو سمجھتی ہیں، جبکہ لڑکوں کی اکثریت ایسا نہیں سوچتی۔فرانسیسی ماہرین نے یہ انکشاف 72 ملکوں میں اوسطاً 15 سال عمر کی پانچ لاکھ سے  زیادہ لڑکیوں کے ایک تفصیلی سروے کا تجزیہ کرنے کے بعد کیا ہے۔یہ سروے ’’پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اسسمنٹ‘‘ (PISA) کہلانے والے ایک عالمی تحقیقی مطالعے کے تحت 2018 کے دوران 15 سالہ طالب علموں میں ریاضی، خواندگی اور سائنس سے دلچسپی سے متعلق جاننے کیلیے کیا گیا تھا۔یہ تحقیق ہر تین سال بعد کی جاتی ہے اور اس سلسلے کا حالیہ ترین سروے 2021 میں مکمل ہوا ہے۔ تاہم اس کے نتائج اب تک شائع نہیں ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلا کہ 72 میں سے 71 ممالک کی نوخیز لڑکیاں خود کو لڑکوں سے کم تر اور کند ذہن سمجھتی ہیں۔ اس سروے میں صرف سعودی عرب کی لڑکیوں نے اعتماد کے ساتھ خود کو لڑکوں جتنا قابل اور ذہین بتایا۔حیرت انگیز طور پر، یہ کیفیت ان ملکوں میں بھی بہت زیادہ ہے جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں آزادی حاصل ہے۔یعنی زیادہ آزادی مل جانے کے باوجود، آج بھی دنیا کی بیشتر لڑکیوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہے کہ لڑکی ہونا، لڑکا ہونے کے مقابلے میں کم تر سماجی اور علمی مقام ہے۔سروے میں شامل ایک بیان ’’جب میں ناکام ہوجاؤں، تو مجھے خدشہ ہے کہ مجھ میں (کامیاب ہونے کی) قابلیت ہی نہیں‘‘ کے جواب میں اکثر لڑکیوں نے اتفاق کیا، یعنی وہ اپنی ناکامی کی وجہ اپنے ناقص العقل ہونے کو سمجھتی تھیں۔ اس کے برعکس، لڑکوں نے اس بیان کے جواب میں وقت، حالات اور دیگر عوامل کو ذمہ دار قرار دیا؛ یعنی اپنی ناکامی کی ذمہ داری خود قبول نہیں کی۔اس نتیجے پر ماہرین کو تشویش ہے کیونکہ کئی سال سے آزادی  نسواں کیلیے منظم کوششوں کی سرپرستی اور ان پر عالمی سرمایہ کاری کے باوجود، اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والی لڑکیاں بھی اسی دقیانوسی سوچ (اسٹیریو ٹائپ) میں مبتلا ہیں جو پچھلی کئی صدیوں سے انسانی سماج کا خاصّہ رہا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں اگر کوئی لڑکی خود کو لڑکوں سے کم تر سمجھے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن کم و بیش یہی صورتِ حال ترقی یافتہ ممالک میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں لڑکیوں اور لڑکوں کو بالکل ایک جیسی آزادی حاصل ہے۔ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں ماہرین خود حیران و پریشان ہیں۔ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں ماہرین نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ شاید زیادہ آزادی مل جانے پر بھی لڑکیوں کو روایتی اسٹیریوٹائپ سے چمٹے رہنے میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے لہذا وہ پوری آزادی سے خود کو لڑکوں سے کم تر سمجھتی ہیں۔ بہرحال، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ترقی یافتہ اور صنفی مساوات رکھنے والے ملکوں کی لڑکیاں خود کو کم تر کیوں سمجھتی ہیں جبکہ ان پر کوئی دباؤ بھی نہیں ہوتا؟اس کا جواب حاصل کرنے کیلیے ایک نئی تحقیق کی ضرورت ہوگی تاکہ خواتین کے حوالے سے خود لڑکیوں میں سوچ کو زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھا اور پرکھا جاسکے۔
میاں بیوی اپنی شادی کی چالیسویں سالگرہ پر اپنا سکول کا دور یاد کر رہے تھے۔دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اسکول جائیں گے اور بچپن کے پیار کی یادیں تازہ کریں گے۔وہ اسکول گئے، وہ بینچ دیکھا جس پر پچاس سال پہلے دونوں نے مل کر ’’آئی لو یو‘‘ لکھا تھا۔پیدل واپس آ رہے تھے کہ ایک آرمر گاڑی میں سے ایک تھیلا گرا۔خاتون نے اٹھا لیا۔وہ تھیلے کو گھر لے گئے،کھول کر دیکھا تو اس میں پچاس ہزار ڈالر تھے۔ خاوند نے کہا کہ انھیں وہ تھیلا واپس کرنا چاہیے لیکن بیوی نے کہا ۔۔’’لبھی شے خدا دی‘‘ اور چوبارے میں چھپا دیا۔دوسرے دن ایف بی آئی والے پہنچ گئے اور پوچھا آیا کہ انھیں کوئی تھیلا ملا۔بیوی نے کہا، نہیں۔خاوند بولا۔۔یہ جھوٹ بولتی ہے۔ تھیلا اوپر چوبارے میں ہے۔۔خاتون نے کہا،اس کا دماغ ٹھیک سے کام نہیں کرتا، اس کا ذہن اس کے بچپن میں چلا گیا ہے، یہ سکون آور ادویات لیتا ہے۔ایف بی آئی والے بیٹھ گئے اور خاوند سے کہا،آپ تفصیل سے بتائیں تھیلا کب، کیسے اور کہاں ملا۔؟؟ خاوند نے بولنا شروع کیا،کل میں اور میری بیوی اسکول سے آ رہے تھے۔۔۔ ’’چلو اوئے بابا واقعی پاگل جے‘‘، ایک افسر نے بات کاٹتے ہوئے کہا اور وہ خاتون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چلے گئے۔۔
شادی پر دلہنوں کی کچھ فرمائشیں ہوتی ہیں کہ وہ کس طرح کا لباس پہنیں گی، ان کی شادی کی تقریب کس انداز میں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اب امریکا کی ایک معروف ویڈنگ پلانر نے امیر دلہنوں کی کچھ ایسی عجیب و غریب فرمائشوں اور خواہشات کا انکشاف کر ڈالا ہے کہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ ویڈنگ پلانر نے بتایا ہے کہ ’’میری ایک کلائنٹ نے تین سال کے لیے اپنی شادی منسوخ کردی تاکہ وہ اپنی پسندیدہ تاریخ پر شادی کر سکے۔ یہ تاریخ 22-02-2022 تھی۔ اس دلہن کی شادی دو سال قبل ہونی تھی مگر اس نے اس تاریخ تک کے لیے اپنی شادی ملتوی کر رکھی ہے۔اسے یہ نمبر اس لیے بھی پسند ہے کہ اس نمبر کو سیدھے یا الٹے ہاتھ سے، جس طرف سے بھی پڑھیں، یہ یکساں رہتا ہے۔ویڈنگ پلانر کے مطابق ،ایک دلہن نے اپنی سہیلیوں پر پابندی عائد کر دی کہ وہ اس کی شادی میں ایک جیسا لباس اور زیورات پہن کر آئیں گی۔ اس کی ایک سہیلی نے اپنے کان نہیں چھدوائے ہوئے تھے جس پراس نے اسے اپنی شادی میں شرکت سے روک دیا۔ اس پر باقی سہیلیوں کو غصہ آ گیا اور ان سب نے دلہن سے بدلہ لینے کے لیے کانوں میں زیور کی بجائے ’کلپ آنز‘ (Clip-ons) پہن کر شرکت کی تھی۔ ایک اور دلہن چاہتی تھی کہ اس کی سہیلیاں ایک گیت کی دھن پر قدم اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ چلتی ہوئی شادی کی تقریب میں آئیں۔ اس کے لیے دلہن تین گھنٹے تک اپنی سہیلیوں کو اس گیت پر چلنے کی پریکٹس کرواتی رہی تھی۔۔ ایک کلائنٹ (دلہن)نے شادی سے قبل تین بارعروسی لباس تبدیل کیا تھا،کیونکہ اسے لگتا تھا کہ لباس اسے فٹ نہیں آ رہا۔ ایک دلہن نے بینڈ کو 160گانوں کی ایک فہرست تھما دی تھی اور انہیں حکم دیا تھا کہ یہ تمام گیت ایک خاص ترتیب میں بجائے جائیں۔ایک اور دلہن نے اپنی شادی کے دعوت ناموں کے ساتھ اپنے مہمانوں کو ایک خط بھی بھیجا تھا جس میں سب مہمانوں سے درخواست کی گئی تھی کہ ان میں سے کوئی بھی اس مہینے میں شادی نہ کرے جس مہینے میں اس دلہن کی شادی ہو رہی تھی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔عورت اگر چاہے تو دنیا فتح کرسکتی ہے لیکن۔۔ کپڑوں کے ساتھ میچنگ والی تلوار ملتی نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں