ضمنی انتخابات: یرغمال اور بازیچہ اطفال سیاست

ضمنی انتخابات: یرغمال اور بازیچہ اطفال سیاست

جب یہ سطور رقم کی جارہی ہے، اس وقت ملک میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور پنجاب کی تین صوبائی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے کہ ایک ہی اُمیدوار قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سے سات نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔ یہ اعزاز سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو حاصل ہوا ہے۔ کہ وہ قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے سات نشستوں پر اُمیدوار ہیں۔ نہ جانے یہ قحط الرجال کا معاملہ ہے یا شوقِ خود نمائی۔ ماضی میں بھی ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو، شہباز شریف اور عمران خان سمیت دیگر سیاستدان ایک سے زائد نشستوں پر انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ مگر عمران خان پر تنقید اس لیے کی جارہی ہے کہ ایک تو ان کی نشستوں کی تعداد ماضی میں دیگر سیاستدانوں سے زیادہ ہے۔ دوسرا وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور یہ عام انتخابات نہیں ضمنی انتخابات ہیں اور جیت کی صورت میں واپس اسی اسمبلی میں واپس جانا ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ خود کو کم قومی وسائل خرچ کرنے والا سیاستدان کہلواتے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات میں حصہ لینے اور بعد میں خالی کرنے کے بعد دوبارہ ضمنی انتخابات کے انعقاد پر کس قدر قومی وسائل کا زیاں ہوگا؟ اس وقت انھیں اس کی پروا نہیں ہے۔
 ایک عام ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہ ہی عمران خان ہیں جنہوں نے چھ سات ماہ قبل قومی اسمبلی سے باجماعت استعفے دیے، ملک میں سیاسی بحران پیدا کیا اور مستعفی ہونے کے بعد سے آج تک جنوں میں نہ جانے کیا کیا بولے جارہے ہیں۔ بات انتخابات میں ایک سے زائد نشستوں پر حصہ لینے کی ہورہی ہے مگر ہمارے یہاں ایک سلسلہ انتخاب جیت کر بھی حلف نہ لینے کا ہے۔ اس کی ایک مثال چودھری نثار کی ہے جنہوں نے ایک طویل عرصے کے بعد پنجاب اسمبلی کی نشست کا حلف اُٹھایا اور دوسری مثال اسحاق ڈار کی ہے جنہوں نے ابھی حال ہی میں سینٹ کی رکنیت کا حلف اُٹھایا۔ اس دوران حلقے کے حوالے سے ترقیاتی کام اور مسائل کا کیا ہوا ہوگا؟ ہمارے سیاست دانوں کی بلا سے۔
یہ بھی شاید ملک کی سیاسی تاریخ میں ہونے والے پہلے ضمنی انتخابات ہونگے جس کی فتح و شکست کے اثرات فریقین پر یکساں ہوں گے۔ عام انتخابات میں بہت زیادہ عرصہ باقی نہیں ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت کے لیے فتح و شکست کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں مسلم لیگ نواز کی زیادہ کوشش اتحادیوں کو ساتھ شامل رکھنا ہے۔ باقی رہا پاکستان تحریک انصاف کامعاملہ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے جیت کر بھی اسمبلی میں جانا نہیں ہے تو پھر اس ساری تگ و دو اور مشق کا 
مقصد کیا ہے؟ ایک جانب وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوچکے اور ہر روز فوری انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اداروں کو کبھی واسطے دیتے ہیں اور کبھی دھمکیاں۔ اقتدار میں تھے تو کُلی اختیارات کے مالک ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ان کے تمام عرصہ حکومت میں اداروں کے ساتھ ”ایک پیج“ پر ہونے کی گردان سننے کو ملتی رہی۔ مگرجب عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت سے فارغ ہوئے تو بے اختیاری کے افسانے اور اتحادیوں کی بلیک میلنگ کی داستانیں سنانے لگے۔
ضمنی انتخابات میں ایک سے زائد نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے پروفیسر طاہر نعیم ملک نے پی ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں بتایا کہ پڑوسی ملک بھارت میں یہ قانون ہے کہ انہوں نے ایک حد مقرر کی ہے جو دو نشستوں کی ہے۔ پروفیسر طاہر نعیم ملک کا کہنا تھا کہ اس میں عوام کی خون پسینے کی کمائی سے دیا گیا ٹیکس کا پیسہ شامل ہوتا ہے اور دوسرا ووٹر کو اس کے باوجود تکلیف دی جا رہی ہے کہ اگر یہ امیدوار جیت گیا تو اس نشست پر دوبارہ انتخاب ہوگا۔سات نشستوں پر عمران خان کے انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے یہ دیکھا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ اسمبلی میں جائیں گے نہیں اور حلف بھی نہیں لیں گے۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کی جیت ہوتی ہے تو اس بات کو تقویت حاصل ہوگی کہ اُن کا بیانیہ مقبول ہے۔ مسلم لیگ کو اگر فتح حاصل ہوتی ہے تو انھیں اس قدر ہی سکون حاصل ہوگا کہ وہ اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے بچ سکیں گے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ ہمارے سیاست دان ایسے نازک موقع پر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے بجائے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ عمران خان اگر سات کی سات نشستوں پر کامیاب بھی ہوجاتے اور کسی انتظام کی صورت میں اسمبلیوں میں جانے کا ارادہ بھی باندھ لیتے ہیں تو انہیں چھ نشستوں سے استعفیٰ دینا پڑتا جہاں پھر ضمنی انتخابات ہونگے۔
عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخابات۔ ایک سے زائد نشستوں پر ایک ہی اُمیدوار کی جانب سے حصہ لینے کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور وزارت خزانہ کو نوٹس لینا چاہیے اور قانون سازی اس طرح کی، کی جائے کہ یا تو ایک حد مقرر کی جائے جیسا کہ پڑوسی ملک میں ہے یا پھر ایک سے زائد نشستوں پر انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار کی فتح کی صورت میں اس کی جانب سے خالی کی جانیوالی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات کا تمام خرچ اُس اُمیدوار سے وصول کیا جائے۔
خرچ کے حوالے سے یاد آیا کہ بلاشبہ یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے کہ اگر ملک میں سیاسی بحران اپنی انتہا پر ہو تب بھی قومی اسمبلی میں ایک بِل ایسا بھی ہے جو متفقہ طور پر منظور کر لیا جاتا ہے اور وہ بِل ہے اراکین اسمبلی کی مراعات کا بل۔انتخابات میں کروڑوں روپیہ خرچ کرنے والے مراعات کے حصول کے لیے کس قدر مرے جاتے ہیں یہ ہمارے یہاں ہی دیکھنے میں آیا ہے۔خدا جانے وطنِ عزیز میں سیاست کب تک بازیچہ اطفال بنی رہے گی اور کب تک جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور نظریاتی بد دیانتوں کے ہاتھوں یرغمال رہے گی؟

مصنف کے بارے میں