ہمارا بنیا دی مسئلہ

ہمارا بنیا دی مسئلہ

قارئین کرا م آپ کو یا دکر انے کی ضرورت نہیںکہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بالآخر پیپلز پارٹی کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیا ہے۔ سیاسی طور پر اپوزیشن کی جدوجہد کا جائزہ لیتے ہوئے جب سیاسی مبصرین، سول سوسائٹی او رملک کے فہمیدہ حلقوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ سیاسی نظریہ، جمہوری و وفاقی اور انسانی حقوق سمیت مساوات، معاشی انصاف اور عدلیہ میں آزادی اور خواتین کی اقتصادی استقامت اور معاشی طاقت کے وہ سارے مقاصد مملکت خداداد نے حاصل کرلیے ہیں؟ اور کیا 47 برس کی معاشی آزادی، سویلین حکمرانی اور فلاحی ریاست کا نصب العین عوامی امنگوں کے مطابق ہے؟ طرزِ حکمرانی سے عوام طمانیت کا اظہار کرتے ہیں، عوام کو جمہوری ثمرات حاصل ہیں، انہیں معاشی مساوات ملی ہے، بچے سکولوں میں تعلیم کے طے کردہ مقاصد پورے کرچکے ہیں، کچی آبادیوں میں عوام اطمینان و خوشی سے رہ رہے ہیں، جرائم کی شرح کنٹرول میں ہے، بیروزگاری اور غربت کو قابو میں کرنے کے لیے حکومت کو اپنی معاشی، مالیاتی اور اقتصادی پالیسیوں کے تناظر میں کبھی کسی نے سوچا کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں کوئی ایک ماہر مالیات قومی خزانہ بھرنے کے قابل کوئی فلسفہ نہ دے سکا؟ کیا غیرملکی قرضوں نے مکمل نجات حاصل ہوگئی ہے؟ تو ان سوالوں کے زیادہ تر جوابات نہیں ملتے۔ بات قیاس آرائیوں کی نذر ہوتی رہتی ہے، کوئی اوپن ڈیبیٹ اگر ہوتی بھی ہے تو اس کا کوئی نتیجہ عوام کے سامنے نہیں آتا کیونکہ ایک نظام خیال نہیں ہے، قومی سطح پر ایک ایک مشترکہ اقدار ہمارے سیاسی، سماجی تمدن میں جگہ نہیں پاسکے۔ ملک جیسے جیسے سفر کرتا رہا، عوام نے سمجھا کہ حکمران منزل تک پہنچائیں گے۔ ہر چیز ٹھیک ہوجائے گی لیکن سسٹم کو بنتے بھی دیر لگتی ہے۔ ایک اینٹ کے بعد دوسری اینٹ رکھی جاتی ہے تب کوئی عمارت درست طریقے پر اپنے تعمیراتی منزلیں طے کرتی ہے۔ہمارا قومی المیہ آج بھی وہی ہے جس کی بنیاد سے کجی یا ٹیڑھا پن صاف ظاہر تھا۔ بابائے قوم کی ابتدائی تقاریر کا مطالعہ کریں تو ان کی نگاہیں رشوت یا کرپشن اور اقربا پروری کو قومی امراض میں اولیت دیتی نظر آتی ہیں۔ ماہرین تعلیم نے نظام تعلیم کی خرابیوں پر کتنے مقالے اور سیمینارز میں رپورٹیں لکھیں، کتنی بار نصاب تبدیل کیے گئے۔ سارے مرتبین اہل علم و نظر تھے۔ ان کی نگاہیں معمارانِ قوم پر مرکوز تھیں۔ لیکن جو نظام تعلیم آج قوم کے سامنے ہے، اس پر کچھ کہنا لاحاصل ہے۔ امتحانات کا نظام ناقص ہے، نقل مافیا نے تعلیم کو تجارت اور منافع خوری کا ذریعہ بنالیا ہے۔ آج مدت گزری ایک نصاب پڑھانے کی وزیراعظم دل سوزی کی ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس دردمندی کا اظہار بھی ان کے لبوں پر آتا ہے کہ ہم تعلیمی نسل پرستی کرتے ہیں۔ تین ثقافتیں پڑھارہے ہیں۔ کوئی یہ پوچھے ایسا کون کررہا ے۔ اردو زبان کو سرکاری بنانے کے لیے کون سے اقدامات کیے گئے؟ جو 
انگریزی اور اردو زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ان کے معیار کی تفریق سے ہونے والی فکری پستی اور علمی تشنگی کا المیہ ساری قوم پر کھل جائے گا۔ ان اہم تعلیمی اور علمی مسائل پر ہمارے مشاہیر، معلمین اور اساتذہ نے کیا سٹینڈ لیا؟ بیوروکریسی کو قومی انداز فکر سے مطابقت پیدا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک طبقہ اشرافیہ پیدا کیا گیا جو کالے گوروں میں برسوں سے کلرک پیدا ہوتے دیکھ رہا ہے۔ کتنے لاکھ لارڈ میکالے آج بھی انگریزی زبان کی غلامی میں قید ہیں ، ایک پوری نسل اس کوشش میں سرگردان ہے کہ کیسے شیکسپیئر جیسی انگریزی لکھ کر باکمال کہلاسکے گی۔ قومی زبان سے محبت آسمان سے نہیں برسا کرتی اس کے لیے زمین کی مٹی کو ملائم کرنا پڑتا ہے۔ پہلے کے صحافیوں سے کہا جاتا تھا کہ کلاسیکی ادب پڑھا کرو، اردو زبان آتی ہے آتے آتے لیکن یہ سارے پندو نصائح خاک بسر ہوئے۔ ایک زمانہ تھا کہ اردو کی کتابیں ریگل سٹاپ اور دیگر پتھاروں پر سستے داموں مل جاتی تھیں۔ لوگ خرید کر پڑھ لیتے تھے۔ پھر مہنگائی کی ایسی کالی آندھی آئی کہ کتب فروشوں نے سارے طالب علموں کے گھر دیکھ لیے۔ کتابیں مہنگی سے مہنگی تر ہوتی گئیں۔ آج کہا جاتا ہے کہ کتابیں نہیں بکتیں، کتابیں پڑھنے والے اب نہیں رہے۔ سب نیٹ، فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی طر ف چلے گئے۔ ان میں کچھ غلط بھی نہیں۔ فلم اور ڈرامے میں رقابت بہت پرانی ہے۔ جب پارسی تھیٹر اور پنجولی ڈرامہ ہوتا تھا، آغا حشر بھی ساتھ ساتھ چلتے رہتے لیکن اداکاری، موضوعات اور سکرین پلے کا ایک معیار تھا۔ آج کل ہر چیز اپنے معیار سے ہٹ چکی ہے۔ زندگی اتنی تیزرفتار ہوگئی ہے کہ کوئی فکری اور نظریاتی فرق ہی نہیں ملتا۔ سماجی امتیازات اور محبتوں میں فرق اور دوری کا عجیب زمانہ آگیا ہے۔ سیاست کی اپنی رمزیت تھی، سیاست دان سادہ دل اور ایثار و بے لوثی کی تصویر تھے۔ اکثر دیکھا گیا کہ غریب کے بچے کو ماضی کا سیاستدان خود سکول لے کر جاتا اور اسے ہیڈماسٹر سے ملا کر داخلے کا انتظام کرتا تھا۔ رحم دلی کا ایک دور پاکستان کی سماجی زیب و زینت کے لیے شاندار تھا۔ کراچی میں دال روٹی مشہور تھی۔ کہتے تھے کہ کوئی کراچی میں بھوکا نہیں سوتا۔ یہ آفاقی سچ تھا لیکن آج دنیا بدل گئی ہے۔ لاکھوں نوجوان بیروزگاری کے جہنم میں سلگ رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے معیار پر ہمارے ماہرین انتہائی دردانگیز مضامین لکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جامعات میں ایسے اساتذہ لائے گئے ہیں جو خود سرقہ نویسی کے ذریعے پاس ہوتے ہیں۔ غریب کے لیے تعلیم حاصل کرنا یا روزگار تلاش کرنا مشکل ترین ہوگیا ہے۔ دنیا کا مشکل ترین کام ایک گھر بنانا ہے۔ جبکہ اشرافیہ کے گھروں اور محلات کو دیکھ کر معاشرے میں معاشی اونچ نیچ کے باعث جرائم میں اضافہ کے رجحانات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سارا سماج بربریت والا ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ خاندانی نظام کب کا زمیں بوس ہوچکا۔ جنسی جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے جرائم غیرانسانی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات نے انسان اور انسانیت کو کون سی بلندی عطا کی ہے۔ مشینوں کی حکمرانی نے تفریحات کے دائرے بڑھالیے اور ایسے وسعتیں پیدا کی ہیں کہ آسائشوں اور تعیشات کے درمیان کوئی حکومت حد امتیاز قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ انسانی خواہشات نے زمینی حقائق اور ایک غریب کو چادر کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اخلاقی تعلیم سے دور نکال دیا ہے۔ معاشرہ میں وہ آدمی حقیر و فقیر ہوگیا ہے جو شرافت اور سادگی کے ساتھ اپنے بال بچوں کو لکھانے پڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ معاشی ضرورتیں بے لگام ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں حکمران اقتصادی اور معاشی ضرورتوں کی طرف سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کو تیار نہیں۔ خلق خدا کو مہنگائی نے ذہنی دبائو اور پریشانی میں الجھادیا ہے۔ لیکن ارکان اسمبلی کو اپنی تنخواہیں بڑھانے اور دیگر مراعات کی فکر ہے۔ عجیب حکمرانی ہے کہ جو برسراقتدار آئی ہی اس دعوے پر ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی مگر اسی کے اپنے سسٹم میں کرپشن کنٹرول کرنے کا کوئی سائنسی طریقہ متعارف نہیں ہوسکا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیروں کو ان کی بے نام کارکردگی پر ایوارڈ مل رہے ہیں۔ارباب اختیار کو زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے لیے پہاڑ نہیں کھودنا پڑیں گے، یہ کام خوردبینی، سنجیدگی اور فہمیدگی سے کرنے ہیں۔ اہل سیاست کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے، جو عوام کے ووٹوں پر اقتدار میں آئے ہیں انہیں اپنی تجوریاں بھرنے کے بجائے عوام کی محرومیاں دور کرنی چاہئیں۔

مصنف کے بارے میں