منشیات سے پاک پاکستان کا خواب

منشیات سے پاک پاکستان کا خواب

’’نشہ‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جس کے زبان پر آتے ہی اس کی خرابیاں نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صالح و صحت مند معاشرہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتا۔ دنیا کے تمام ممالک میں منشیات کے استعمال پر قانوناً پابندیاں عائد نظر آتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں آج ایسے افراد کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو منشیات کا شکار ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں منشیات کے عادی افراد خاص طور پر نشے کی لت کا شکار نوجوان طلبا و طالبات کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی اس حوالے سے صورتحال اتنی اچھی نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں 90لاکھ سے زائد افراد منشیات کا شکار ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بھی خطرے کی علامت ہے جس کے تباہ کن اثرات نہ صرف نشہ کرنے والے فرد بلکہ اس کے خاندان کے دیگر افراد اور معاشرے تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ ڈپریشن، نفسیاتی مسائل، غربت اور ساتھی طلبا و طالبات کا دباؤ، سٹیٹس کو، نجی تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے میدان اور ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا فقدان بھی نوجوان نسل کے منشیات کا شکار بننے کی وجوہات ہیں۔ ہمارے بچے قوم کا مستقبل ہیں انہیں منشیات و دیگر جرائم سے محفوظ رکھنے کیلئے والدین، اساتذہ، پولیس اور سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا فریضہ اور اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ سگریٹ کی ڈبیہ پر ’’خبردار! تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے‘‘ لکھ کر حکومت نے سگریٹ سازی کی صنعت کو روکنے یا اس کی خرید و فروخت کے حوالے سے کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سگریٹ نوشی اور چرس کے استعمال کے علاوہ گزشتہ ایک دہائی سے نوجوان نسل میں ایک نئے نشہ نے تیزی سے اپنا اثر چھوڑا ہے لڑکوں حتیٰ کہ لڑکیوں میں بھی شیشہ کا استعمال ایک فیشن بن کر رہ گیا ہے۔ آئے دن تعلیمی اداروں خاص طور پر بڑے شہروں میں قائم تعلیمی اداروں میں منشیات(ہیروئن، چرس، افیون وغیرہ) خاص طور پر آئس کا نشہ فروغ پا رہا ہے۔ ’’کرسٹل میتھ‘‘ نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’کرسٹل‘‘ یا ’’آئس‘‘ نامی یہ نشہ ’’میتھ ایمفٹامین‘‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ ’’آئس‘‘ پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس نشے میں انسان کا حافظہ انتہائی تیزی سے کام کرتا ہے اور اس میں توانائی آ جاتی ہے۔ تاہم جب نشہ اترتا ہے تو انسان انتہائی تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتا ہے۔ یہ نشہ بالکل کوکین کی طرح کام کرتا ہے لیکن یہ کوکین سے سستا اور اس سے زیادہ خطرناک ہے۔
امیر گھرانوں کے نوجوانوں میں ’’آئس‘‘ کے استعمال کی ایک وجہ جنسی قوت میں اضافے کی خواہش بھی بتائی جاتی ہے، تاہم اس کے برعکس ’’آئس ہیروئن‘‘ کی لت انسان کو ذہنی اور جسمانی معذور کر رہی ہے۔ اس کا عادی انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔ گھر کے کسی فرد کا نشے میں مبتلا ہونے کا اثر پورے گھر پر پڑتا ہے خاص طور پر وہ نوجوان جنہیں والدین اعلیٰ تعلیم کے لیے کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید شہری بننے کے ساتھ والدین کا سہارا بنیں لیکن افسوس کہ اُن میں سے چند نادان غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ دنیا بھر میں آئس نشے کے عادی افراد کی جانب سے ہی ریپ اور زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں جو اس نشے 
کا خطرناک ترین پہلو ہے۔ نور مقدم قتل کیس کا مرکزی مجرم ظاہر جعفر اس کی سب بڑی مثال ہے۔ یہ والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں اور رویوں پر گہری نظر رکھیں۔ بچوں کے منشیات کا شکار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں پارٹی کلچر آج کل سب سے نمایاں ہے۔ یہ بات سامنے آئی ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات منشیات کا شکار ایسے ہی پارٹیوں میں شرکت کر کے بن رہے ہیں لہٰذا والدین اپنے بچوں کو ان پارٹیوں سے دور رکھیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں منشیات کا استعمال 22 فیصد بڑھا ہے۔ ہیش، ڈرٹی ہیش، ایکسٹسی، کرسٹل، کوکین آئس اور تازہ ترین اضافہ آکسیجن کا ہے۔ پاکستان میں انسداد منشیات فورس کے مطابق ہیروئن مقبول ترین نشہ ہے اور 77 فیصد منشیات کے عادی افراد اس کی لت میں مبتلا ہیں۔ منشیات کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کا آغاز چرس سے ہوتا ہے جو سستی اور بآسانی دستیاب ہے۔ پاکستان میں منشیات کی لت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال 40 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے جو بہت ہی تشویشناک اعداد و شمار ہیں۔ ڈپریشن، ذہنی صحت، ناکامی، سیکس جیسے موضوعات کی طرح منشیات کا استعمال بھی اس زمرے میں آتا ہے جس پر بات نہیں کی جاتی۔ اسی طرح منشیات کے عادی افراد کی لت چھڑانے کے لیے ان کا علاج کرانے اور ان کی مدد کرنے کے بجائے آنکھیں بند کرنے اور بات نہ کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ نشہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ہی زہر قاتل ہے۔ یہ تباہی کا وہ راستہ ہے جس پر چلنے کے بعد متاثرہ ملک چاہے ایک ایٹمی طاقت ہی کیوں نہ ہو، اس کا اثر و رسوخ زائل ہو جاتا ہے کیونکہ نشے میں دھت ہو جانے والے اس ملک کے نوجوان چلتے پھرتے بم بن جاتے ہیں۔ درجنوں خودکش بمبار اس کی عام مثال ہیں۔ منشیات سے سالانہ کھربوں کی مالیت کا کالا دھن ملکی معیشت کو تباہ اور برباد کر رہا ہے اور ہم تاحال بے بس ہیں۔ افغانستان سے آج بھی بہت بڑی تعداد میں منشیات پاکستان کے راستے دنیا کے دیگر ممالک میں سمگل کی جا رہی ہیں، لیکن ہماری کوششیں ناکافی ہیں۔ جبکہ ملک میں نشے کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور آگاہی کی مہمات نہ ہونے کہ برابر ہیں۔ ملک کی تمام دینی، سماجی اور سیاسی تنظیمیں اپنے پروگرام اور منشور میں ’’منشیات کے خلاف جہاد‘‘ کا نعرہ شامل کریں اور عوام سیاسی جلسوں، اجتماعات اور ورکرز میٹنگز میں اپنے قائدین سے اس ضمن میں کی گئی کارگزاری کے بارے میں سوال کریں۔ ہر پارٹی اپنے ممبر سے عہد لے کہ وہ نشہ کرے گا نہ نشہ کے کاروبار میں کسی بھی لحاظ سے شریک ہو گا۔ انتخاب کے موقع پر ٹکٹ دیتے ہوئے نشہ کے کاروبار کرنے والے کسی بھی فرد کو ٹکٹ نہ دے خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں ہو۔ مشائخ عظام اپنے حلقہ ارادت میں آنے والے سے بیعت کرتے وقت یہ عہد لیں کہ وہ نشہ کرے گا نہ نشہ بیچے گا۔ علمائے کرام اپنے خطبات جمعہ میں، وعظ کی مجلسوں میں، درس قرآن و حدیث میں اس کی شرعی حیثیت اور اس کے نقصانات واضح کریں اور ان سے ہاتھ اٹھوا کر عہد لیں کہ وہ خود بھی اس سے بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے۔ اسی طرح کا عہد تعلیمی اداروں میں قائم طلبہ تنظیمیں، کھلاڑیوں کی فیڈریشنز، کمیٹیوں اور بازاروں کی یونینز، برادریوں کے نام پر قائم جماعتیں اور اصلاح معاشرہ کی تنظیمیں بھی اپنے ممبران سے لیں۔ دین کے ساتھ جتنا گہرا تعلق ہو گا، جتنا دین کا فہم انسان کے اندر ہو گا اتنا ہی وہ لغویات، لہو و لعب اور منشیات سے بچے گا۔ شاید اس کے بعد ہی منشیات سے پاک پاکستان کا حصول ممکن ہو۔

مصنف کے بارے میں