اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

کچھ دنوں پہلے بہت سی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خطرہ حقیقت میں بدل گیا ہوا کچھ اس طرح کے روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا جیسے کہا جاتا تھا نہ کہ جانے کس وقت تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوجائے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اپنے اتحادی ملک کا ساتھ دینے کے لیے اس جنگ میں کودنا پڑ سکتا ہے اور اس کا نتیجہ پوری دنیا کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے وہ اس طرح سے کہ اب یہ جنگ بندوق ٹینک اور ہتھیاروں کی نہیں بلکہ نیوکلیئر ہتھیاروں تک پہنچ جائے گی جو کہ ایک ہی لمحے میں پورے شہروں کے شہر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس وقت آپ کو بتاتی چلوں کہ 97% نیوکلیئر ہتھیار امریکہ اور روس کے پاس ہیں اور جو حالات روس اور یوکرین کے درمیان پیدا ہوئے یہ بہت ہی غلط وقت پر ہوئے روس اور یوکرین کے تنازع کی سب سے بڑی وجہ سوویت یونین کے اتحاد کا حصہ جو کہ امریکہ اور یوکرین تھے۔
چند دنوں پہلے خبریں گردش کر رہی تھیں کہ روس مسلسل یوکرائن کے باڈر پر اپنے ملٹری اور جنگی ہتھیاروں کی تعداد بڑھا رہا ہے جس میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ فوجی فائٹر جیٹ میزائل ٹینک یوکرین کے بارڈر پر تعینات کر دیے تھے روس نے جس سے صاف ظاہر ہو گیا تھا کہ روس کسی بھی صورت اس تنازع سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہو گا۔ روس ہر سال اگست اور ستمبر میں اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کی ایک نمائش کرتا ہے مگر اس بار ان ہتھیاروں کی نمائش فروری اور مارچ میں روس نے کرانے کا فیصلہ کیا تھا اس نمائش کا جلدی کرانا بھی اصل وجہ امریکہ اور روس کے درمیان یوکرین ملک کو لے کر تنازع تھا۔
 روس اوریوکرین کی لڑائی کی اصل وجہ یہ تھی کہ روس کے ساتھ اتحاد کرنے والی ریاستوں میں یوکرین بھی شامل تھا یعنی یوکرین بھی سوویت یونین کا حصہ تھا 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد ہونے والے پندرہ ملکوں میں یوکرین بھی شامل تھا جو کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے اور روس کے ساتھ کلچر اور باڈر کو شیئر کرتا ہے۔
امریکہ جیسا کہ ہمیشہ ایک بہت بڑا گیمر رہا ہے یہاں بھی امریکہ نے ایک گیم چلائی وہ یہ کہ سوویت یونین جیسا ملٹری اتحاد دوبارہ بن نہ سکے اور اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکہ نے اپریل 1949ء میں 23 ملکوں کا ملٹری اتحاد نیٹو کی صورت میں بنایا جس میں امریکہ ڈنمارک اٹلی فرانس کینیڈا یوکے جیسے ملکوں کو شامل کرکے اسے مزید مضبوط کردیا تاکہ روس ان میں سے کسی ایک ملک پر بھی اگر جنگ مسلط کرتا ہے یا پھر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب ممالک مل کر روس کو بہت زبردست جواب دے سکیں۔
مگر اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب یوکرائن نے نیٹو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ظاہر سی بات ہے یوکرائن اب ایک آزاد ملک ہے اور اپنے ملک کے مفاد کے لئے جو چاہے فیصلہ کرسکتا ہے مگر روس اب بھی یوکرین کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ امریکہ نیٹو کی صورت میں یوکرین کو نیٹو میں شامل کرکے اسے اس بارڈر کی طرف سے گھیرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس ڈر سے کہ امریکہ ایسا نہ کر دے روس نے یوکرین کو نیوکلیئر سے ختم کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی تھی اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے جیسے یوکرین پر روس نے حملہ کیا پوری دنیا اس وقت روس کی باتوں کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے وہ اس لیے روس نے یہاں جو کچھ پہلے کیا وہ پہلے بھی یوکرین کے بہت بڑے علاقے کریمیا پر 2014ء میں قبضہ کر چکا ہے اور اب جیسے حملہ کیا ہے یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہو گئی ہے ان حالات میں جب یوکرائن پر حملہ دھمکی دی جا رہی تھی تو امریکہ نے یوکرین کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ افغانستان میں اربوں ڈالر لگانے کے بعد امریکہ کے عوام جو ٹیکس دیتے تھے جب قرضوں کے بوجھ تلے دب کر امریکہ یہ جنگ ہار گیا تو پوری دنیا کی انٹرنیشنل پالیٹکس پر اس کا اثر بہت کم ہوگیا چھوٹے چھوٹے ممالک بھی امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں اس وقت امریکہ ان حالات میں بھی نہیں کہ کسی جنگ کا سامنا کر سکے اس کا اندازہ وائٹ ہاؤس میں جو بائیڈن سے پوچھے جانے والے ایک سوال نے ثابت کر دیا تھا جب ایک سوال پوچھا گیا امریکی صدر سے کیا یوکرین اور روس کی جنگ ہوسکتی ہے تو جواب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ روس کچھ تو کرنے والا ہے جو اتنے عرصے کی خاموشی ہے۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ اگر روس ایسا کوئی کام کرتا ہے تو نیٹو میں شامل تمام ممالک روس پر تجارتی پابندیاں لگا دیں گے جس سے روس کی معیشت تباہ ہو جائے گی مگر یہ سب سننے کی بعد یوکرین عوام میں ایک مایوسی بھی آئی تھی جب امریکی صدر نے اپنے شہریوں اور سفیروں کو یوکرائن چھوڑنے کا کہا تھا یہ بھی امریکہ کی ایک ہار کا ثبوت تھا۔
اب جتنا یہ معاملہ خراب ہو گیا ہے مجھے لگتا ہے کہ دنیا کے کسی بڑے ملک کو جلد سے جلد ثالثی کا کردار ادا کرنا ہوگا روس اور یوکرین میں ورنہ یہ صورتحال دن بدن خراب ہی ہوگی مگر دیکھنا یہ ہے یہ حالات کس جانب جائیں گے خیر جو بھی ہے یہ پوری دنیا کے لئے اچھی صورتحال نہیں…

مصنف کے بارے میں