سپریم کورٹ: علی وزیر کی ضمانت منظور، فوری رہائی کا حکم 

سپریم کورٹ: علی وزیر کی ضمانت منظور، فوری رہائی کا حکم 
سورس: File

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کرلی ہے  اور انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ 

جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 4 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے پر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ 

دوران سماعت عدالت میں کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کا نام لیے بغیر تذکرہ  ہوا ،جسٹس سردار طارق نے کہا کہ لوگ شہید ہو رہے ہیں کیا وہاں قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگتی ؟ کیا عدالت صرف ضمانتیں خارج کرنے کیلئے بیٹھی ہوئی ہے؟

عدالت نے قرار دیا کہ  شریک ملزمان کو رہا کر دیا گیا تھا، علی وزیر کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا،جسٹس  سردار طارق بولے   ریاست مذاکرات کرکے لوگوں کو چھوڑ رہی ہے، ہو سکتا ہے کل علی وزیر کیساتھ بھی معاملہ طے ہو جائے۔

  جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ کیا علی وزیر کے الزامات پر پارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟علی وزیر نے شکایت کی تھی اسکا گلہ دور کرنا چاہیے تھا، اپنوں کو سینے سے لگانے کے بجائے پرایا کیوں بنایا جا رہا ہے؟ علی وزیر کا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟ شریک ملزمان کیساتھ رویہ دیکھ کر گڈ طالبان بیڈ طالبان والا کیس لگتا ہے۔

خیال رہے کہ پولیس نے سندھ پولیس کی درخواست پر علی وزیر کو پشاور سے 16 دسمبر 2020 کو گرفتار کر کے کراچی منتقل کردیا تھا۔

انہیں 6 دسمبر 2020 کو کراچی میں نکالی گئی پی ٹی ایم کی ایک احتجاجی ریلی کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز اور تضحیک آمیز الزامات لگانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ مذکورہ ریلی کے اگلے روز سہراب گوٹھ پولیس تھانے میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

زیر حراست رکن قومی اسمبلی نے فروری میں انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالت اس بات کو مدِ نظر میں ناکام رہی کہ ایف آئی آر کے چالان میں نامزد گواہ آزاد گواہ نہیں بلکہ پولیس اہلکار تھے۔

درخواست میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ جس علاقے میں جلسہ ہوا وہاں سے اپیل کنندہ کے خلاف کوئی آزاد گواہ پیش نہیں کیا گیا، اس لیے ایک رکن قومی اسمبلی جو خود پارلیمان اور قانون کی بالادستی کی جدو جہد کر رہے ہیں، انہیں ایک جھوٹے کیس میں پھنسا دیا گیا۔

درخواست کے مطابق اپیل کنندہ کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں اور نہ ان کے خلاف کوئی اور مقدمہ زیر التوا ہے۔ ساتھ ہی درخواست میں علی وزیر کو سازش، ریاست کے خلاف اعلان جنگ، صدر اور گورنر پر حملے، مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کے فروغ، قانون کی خلاف ورزی اور بغاوت کے لیے افواہین پھیلانے جیسے جرائم سے منسلک کرنے کے لیے آزاد ثبوت فراہم کیے جانے کا کہا۔

اپیل میں کہا گیا کہ علی وزیر کو حکمراں جماعت سے سیاسی دشمنی کی وجہ سے گرفتار کر کے مقدمے میں پھنسایا گیا۔