خالی ہاتھ!!

خالی ہاتھ!!

خلیفہ خالی ہاتھ ہوتا ہے!! اگر خلیفہ خود کوئی اختیار سنبھالتا ہے‘ تو بے اختیار ہو جاتا ہے۔ اللہ نے آدم ؑ کو زمین پر اپنا خلیفہ بنانے کا عندیہ ظاہر کیا تو فرشتے بے اختیار اعتراض داغ بیٹھے۔ یااللہ! کیا تو ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو زمین پر فساد برپا کرے اور خون ریزیاں کرے۔ اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ جو میں جانتا ہوں ‘ وہ تم نہیں جانتے۔ فرشتے جانتے تھے کہ خلیفہ کو اختیارات ودیعت کیے جائیں گے۔ اسے یہاں تک اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ اگر چاہے تو اپنے بھائی بندوں کا خون تک بہائے۔لیکن خالقِ ارض و سما ء کو اپنے اس شاہکار پر‘ جسے اس نے احسن تقویم کہا‘ کس قدر بھروسہ ہے کہ ابھی تک دما دم صدائے کن فیکون سنائی دیتی ہے۔ اسے بھروسہ ہے کہ یہ صورتِ آدم حضرتِ انسان کا رنگ ڈھنگ بھی اختیار کرے گی۔ اس لیے وہ اسے بدستور توبہ کی مہلت دیے چلے جا رہا ہے۔   
خلیفہ کا مفہوم سمجھنے کے لیے اسے وائسرائے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ کسی علاقے کا وائسرائے اپنی پالیسی تشکیل نہیں دیتا بلکہ وہ سلطنت ِ عظمیٰ کے حقیقی تاجدار کی دی ہوئی پالیسی کے مطابق کام کرتا ہے۔ خلیفہ اپنا ذاتی تصرف نہیں کرتا ۔ وہ ذاتی حیثیت سے ذاتِ حقیقی سے متعلق ہوتا ہے ‘ اس لیے سرکار کی پالیسی سے سرِ مُوانحراف نہیں کرتا۔وہ جانتا ہے کہ اگر وہ بال برابر بھی منحرف ہو گا‘ تو اُس کی رعایا حقیقی مدعا سے میلوں پرے جاپڑے گی۔ سرکاری حکم نامہ ہے کہ تم میں ہر شخص راعی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اگر میں باپ ہوں تواپنے بچوں کے بارے میں مجھ سے سوال ہوگا، مجھ سے پوچھا جائے گا کہ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ انصاف سے کام لیا، ان کا دل جیتا، انہیں سرکار کی پالیسی سے متعارف کرایا، اُن کی اصلاح کے لیے صرف قیل وقال کی چھڑی استعمال کی یااپنے افکار و کردار کے ذریعے بھی  انہیں تغذیہ فراہم کیا۔اگر میں استاد ہوں ‘اور چند شاگردوں کی تعلیم وتربیت کا مرحلہ مجھے درپیش ہے تو بعینہٖ یہی سوال نامہ شاگردوں کے باب میں میرے سامنے پیش ہوگا۔ 
خلیفہ من مانی کرے تواپنے منصب سے معزول سمجھا جائے۔اگرمیرا گمان ہے کہ میں اپنے رب کا خلیفہ ہوں‘ لیکن میں اپنی زندگی سے اپنی مرضی منفی نہیں کر سکا تو مجھے کسی ضرب اور غضب کا منتظر ہونا چاہیے۔میں بھول گیاہوں‘ میری طاقت اپنی طاقت کو نیام میں رکھنے سے ہے۔ بغیر اَمر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ مجھے کمزور کر رہا ہے۔ظاہری طاقت کے مظاہرے سے میری روحانی طاقت پامال ہو رہی ہے۔ میرا اختیار کسی کی امانت ہے۔ میری عزت اُس کی وجہ سے ہے، میرے تصرفات اُس کی عطا ہیں۔ میرے کمالات میں میرا ذاتی کمال کچھ بھی نہیں۔ میری صفات مجھے مخلوق سے متعارف کراتی ہیں لیکن میری ذات‘ مجھے اُس کی ذات سے متعلق کرتی ہے۔ جب میں خود سے غافل ہوتا ہوں ‘ تو خدا سے غافل ہو جاتا ہوں۔میری سلامتی اسی میں ہے کہ میں دوسروں کے لیے سلامتی کا پیام بر ہو جاؤں۔ خالی ہاتھ ہونا میرے ہی فائدے میں ہے۔ ہاتھ اٹھانے والا خالی ہاتھ کب ہوتا ہے!آزار کی تمنا ہاتھ میں اَوزار تھما دیتی ہے۔
 جب تک میں خود سے خود کو نہیں نکالتا ‘ دوسروں کے لیے منفعت بخش نہیں ہوتا۔ میری ساری ’’خدمات‘‘ سیاست اور تجارت کے ابواب ہیں۔ اپنی مرضی سے اپنے من پسند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے میں کتنے ہی مستحق افراد کی حق تلفی کا مرتکب ہو جاتا ہوں۔ اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے میں سعادت سے شقاوت کی طرف چل نکلتا ہوں، اور توبہ کی توفیق ملتے ہیں یونہی بیٹھے بٹھائے ‘ میں شقاوت سے سعادت کی طرف محو ِ سفر ہو جاتا ہوں۔
غصے، نفرت اور اشتعال کی حالت میں ‘ میں اپنے تصرف کا بھرپور استعمال کرتا ہوں۔ ضبط، صبر اور محبت مجھے خالی ہاتھ کر دیتے ہیں۔  بے ضرر ہونے سے لے کر منفعت بخش ہونے تک سارا کمال میرے عدم تصرف کا ہے۔ خالی ہاتھ بندھا ہوا ہاتھ نہیں ہوتا۔ سخی ہونے کے لیے جیب میں مال ضروری نہیں‘ بس دل میں خیال کا ہونا کافی ہے۔ سخاوت کا خیال وارد ہو جائے تو مجھے ایسے راستوں سے رزق میسر آجاتا ہے جہاں سے مجھے گمان بھی نہیں ہوتا۔ میرے پاس میرا اپنا کچھ ہوتا تو سنبھال سنبھال کر رکھتا… یہ سب کچھ کسی کا ہے ، کسی کی طرف سے ہے ‘ اور کسی کے لیے ہے۔ میرے آگے جانے سے پہلے یہ گٹھڑی آگے چلی جائے تو میری جان چھوٹ جاتی ہے ، نہیں‘ تو نہیں!! جسے میں نے جب جب اپنی مِلک تصور کیا ‘ اس میں خیانت کا مرتکب ہوا۔ میں نے اپنے وقت، وجود اور وسائل کو ذاتی ملکیت خیال کیا…بس یہیں سے خیال میں خیانت دَرآئی … میرے عُدُوً مبین کو یہاں دَراندازی کا موقع ملا۔
خلیفہ کے لیے امین ہونا شرطِ لازم ہے۔ ذاتی عزائم رکھنے والا امانت کی پاسداری کیسے کرے گا۔ امانت میں دیانت کا ثبوت وہی دے سکتا ہے ‘ جو خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ جائے۔میرا دعویٰ ہے کہ میں اپنے رب کا خلیفہ ہوں ‘ لیکن میرا خیال اور عمل دونوں اس دعوے کی تکذیب کر رہے ہیں۔ میں نے سرکاری وسائل سے اپنے گھر کے مسائل حل کیے۔ سرکاری فتوحات کو اپنی ذاتی فتوحات جانا …خود کو ہارے بغیر ہی دوسروں کو جیتنے کی کوشش کی … دوسروں کا دل جیتے بغیر ہی خود کو فاتح ِ عالم جانا۔میں نے بزورِ طاقت حکومت کرنے کی کوشش کی۔ میرے پاس موجود وسائل ‘اُس سائل کی امانت تھے ‘ جسے قدرتِ کاملہ نے میرے گھر کا راستہ دکھایا تھا، لیکن میں امانتوں کی تقسیم میں ذاتی پسند اور ناپسند کا شکار رہا۔ مجھے مرعوب اور محکوم لوگ زیادہ مستحق نظر آئے ‘خود دار و خود سر میرے معتوب ٹھہرے۔ اپنے اور غیر کی تقسیم فقط اپنی ذات کے حوالے سے کرتا رہا۔ محاورے میں اندھے کے ہاتھ میں ریوڑیاں کیا آئیں ‘ اپنے من پسند لوگوں ہی میں بانٹتا رہا۔ حیرت ہے ‘ قاسم اور ابولقاسم ؐکا اُمتی ہونا بھی میرا ایک فخریہ دعویٰ ہے ‘ لیکن سخاوت کے باب میں اپنے  اور پرائے کی تقسیم سے باہر نہیں نکل سکا۔  شریعت کا عالم ہونے کامیرا دعویٰ بلند بانگ ہے ‘ لیکن قساوتِ قلبی کا یہ عالم کہ میں وصیت بھی شریعت کے تقاضوں کے مطابق نہ کر سکا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے ‘ خالی ہاتھ جانا صرف سکندر کے لیے مانتا ہوں ‘ اپنے لیے تسلیم نہیں کر سکا۔ جو شئے میری دسترس میں ہے ‘ کسی صورت اس سے دست کش ہونے کو تیار نہیں ‘ خواہ مجھ سے زیادہ استحقاق رکھنے والا سامنے آجائے۔ جوہر اگر جوہر شناس کے سپرد نہ کیا جائے‘ تو ضائع ہو جاتا ہے۔ میں کیسا جوہری ہوں ‘ جوہر پہچانتا ہوں ‘ جوہر شناس کو نہیں پہچانتا۔ 
انسان کا جوہر خود کو خالی کرنے اور رکھنے میں ہے۔ حصول اور وصول اسے چند روزہ صفاتِ مستعار دیتے ہیں۔ خود کو خالی کرنے سے اِس پیکرِ خاکی میں نوری صفات پیدا ہوجاتی ہیں …ذات کی جلوہ گری کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ صفات …متغیر ہوتی ہیں،ذات … مستقیم ومستقم !! انسانی صفات فانی ہیں… ربی صفات باقی رہ جانے والی ہیں۔ انسان اپنی صفات کو فنا کرے تو اسے باقی صفات عطا ہوتی ہیں۔یہ صفاتِ رذیلہ سے خالی ہاتھ ہو جائے ‘ تواِسے صفاتِ جلیلہ میسرآ سکتی ہیں۔ جنابِ آدمؑ خلیفتہ اللہ تھے ، ابن ِ آدم کو ابھی بننا ہے۔  پسر قابلِ میراث پدر کیونکر ہو‘ جب تک ابنِ آدم کو اپنے جدامجد کا سبق اَزبر نہ ہو۔ اسی سبق کو ازبر کرانے کے لیے انبیاء و رُسل مبعوث ہوئے۔ اُ ن کے وارث اولیاء و اصفیاء  مقرر ہوئے۔تعینات کی دنیا میں تاجدارِ ختم نبوت ورسالت ؐ، شہرِ علم ؐ  ٹھہرے اور اِمام الاولیاء علی اِبن ِ ابی طالبؓ باب العلم متعین ہوئے۔دَرِ علمؓ سے شہرِ علم ؐ  تک اور پھر العلم تک بشر کی رسائی کیسے ممکن ہو ‘ اگر وہ خود کوہوا و ہوس سے خالی کرنے کے سبق سے خالی ہو!اُسوۂ حسنہ سے خود کو متصف ہونا‘ خود سے خود کو خالی کرنے کا سبق ہے۔