روس ، یوکرین تنازع آخر ہے کیا؟

روس ، یوکرین تنازع آخر ہے کیا؟

ہم سمجھتے تھے کہ اقوام متحدہ کے ہوتے ہوئے دنیا پرامن ہو چکی ہے، اب کہیں کوئی جنگ نہیں ہوگی، کہیں ایک دوسرے پر ہتھیاروں، ٹینکوں یا گولوں سے حملے نہیں ہوں گے،لیکن ہم سراسر غلط نکلے۔ آج ہر طرف جدید دنیا میں لڑائیاں بھی ہورہی ہیں، جدید ہتھیار بھی استعمال ہورہے ہیں اور کہیں نہ کہیں بائیوہتھیار بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ جی ہاں! آپ کے سامنے زندہ مثال شام، فلسطین، عراق، افغانستان،کشمیر،بوسنیا، سوڈان، لبنان اور اب حالیہ جنگ یوکرین اور اسرائیل کے درمیان ہو رہی ہے، یعنی 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد سے اب تک کوئی دہائی ایسی نہیں گزری جب یہ دنیا جنگ کی لپیٹ میں نہ رہی ہو۔ مطلب جہاں جس ملک کے اپنے مفادات کو خطرہ ہوتا ہے وہاں وہ دوسرے ملک پر چڑھائی کر دیتا ہے، یہ چڑھائی طاقتور کی کمزور ملک پر عام دیکھی گئی ہے۔ اور پھر ان تمام حالات میں دیکھا یہ گیا ہے کہ جنگ کا باعث کوئی اور ملک نہیں بلکہ اپنے آپ کو سپر پاور کہنے والی طاقتیں ہوتی ہیں۔جو لابیاں بناتی اور اْنہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اب آپ یوکرین روس تنازع کو ہی دیکھ لیں سپرپاورز نے یوکرین سے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن جیسے ہی لڑائی شروع ہوئی تمام طاقتیں ماسوائے اکا دکا پابندیاں لگانے کے روس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ حد تو یہ ہے کہ امریکا سمیت فرانس، برطانیہ، جرمنی وغیرہ بھی پوری طرح یوکرین کے ساتھ نہیں ہیں۔ 
خیر اگر ہم یوکرین روس تنازع کی بات کریں تو ایک وقت تھا جب یوکرین کا دارالحکومت کیف جو ایک تاریخی اور قدیم شہر ہے، کبھی روس کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ماضی قریب میں یوکرین تنازع کی جڑیں تلاش کرنے کے لیے سو سال پہلے 1920 کے حالات و واقعات کا جائزہ لینا ہوگا جب انقلاب روس کے بعد یوکرین کو سویت یونین کا حصہ بنایا گیا تھا۔مشرقی یورپ میں واقع یوکرین رقبے کے اعتبار سے روس کے بعد سب سے بڑا یورپی ملک ہے۔چند ماہ سے یوکرین روس کے ساتھ فوجی اور جغرافیائی تنازع کی وجہ سے عالمی مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔دراصل 21 فروری 2022کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے خود ساختہ علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں دونیتسک اور لوہانسک کو خود مختار اور آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔آج مغرب کے ساتھ مل کر روس کے ساتھ لڑتا یوکرین 1920 سے 1991 تک سوویت یونین کا حصہ رہا ہے۔نوے کی دہائی میں جب سوویت یونین کا عروج ڈگمگانے لگا تو یوکرین ان پہلے ممالک میں سے تھا، جس نے 16 جولائی 1990 کو یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تقریباً ایک سال بعد 24 اگست 1991 کو یوکرین نے خودمختاری اور مکمل آزادی کا اعلان بھی کر دیا۔
یوکرین نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن وہاں موجود 17 فیصد روسی النسل آبادی سمیت روس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے دیگر پریشر گروپس اور مغرب کی حمایت کرنے والے گروہوں میں تنازعات کا آغاز ہو گیا۔اسی عرصے میں روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ بھی جاری رہی۔ روس کو یورپ میں قابو کرنے کے لیے امریکہ نے نیٹو کے ساتھ مل کر لیتھیوانیا، پولینڈ اور رومانیہ میں فوج رکھ لی اور ہتھیار نصب کر دیے۔ ان میں سے تین ممالک کی سرحدیں یوکرین سے جڑی ہوئی ہیں۔ 2014 آنے تک یوکرین کی سرحد کے ساتھ صرف بیلاروس ایک ایسا ملک تھا، جس کے تعلقات روس کے ساتھ مثالی تھے۔ 2014 روس اور یوکرین تنازع کا عروج تھا، یاد رہے کہ 2014 میں یوکرین کے صدر وکٹر ینوکووچ تھے، جن کا جھکائو روس کی طرف تھا۔ انہوں نے روس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگئے۔ اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں وکٹوریا نوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اسی دوران یوکرین کے مشرقی علاقوں سے روس کی سرحد پر مامور سکیورٹی افواج پر حملے ہوئے۔ اسے بنیاد بنا کر روس نے کریمیا پر چڑھائی کر دی جو تب سے روس کے کنٹرول میں ہے۔
کریمیا پر روس کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یوکرین کے علیحدگی پسند گروپوں نے بھی ملک کے مشرقی علاقوں میں پیش قدمی کی اور حالات نے خانہ جنگی کی سی صورت حال اختیار کرلی۔ روس نے الزام عائد کیا کہ مغربی ممالک کی حمایت سے مسلح جتھے روسی النسل علاقوں میں خونریزی کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک نے موقف اختیار کیا کہ روسی حمایت سے شر پسند عناصر یوکرین میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ دونوں اطراف سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق 14 ہزار افراد خانہ جنگی میں مارے گئے۔ 2015 میں فرانس کے تعاون سے یوکرین کے تمام متعلقہ گروہوں میں معاہدہ تو ہوگیا لیکن جھڑپیں جاری رہیں۔
 ایسی ہی جھڑپوں میں 2021 کے اواخر میں شدت آ گئی، حالات پر نظر رکھے امریکہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ روس ایک مرتبہ پھر یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے جنگ کے نقطہ آغاز کی تاریخیں بھی دی جانے لگیں۔امریکہ، روس اور مغربی ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطے جاری رہے لیکن 22 فروری کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین سے علیحدگی اختیار کرنے والے دو علاقوں کو آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا۔ روسی صدر نے اپنے خطاب میں یوکرین کی موجودہ حکومت کو مغرب کی کٹھ پتلی قرار دیا اور اپنی وزارت دفاع سے ڈونیسک اور لوہانسک کی آزاد ریاستوں میں امن قائم رکھنے کے لیے فوجیں بھجوانے کا حکم دیا۔ روس کے اس اقدام پر سب سے شدید رد عمل روایتی حریف امریکہ نے دیا ہے، جس کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ اس عمل کا فوری اور مضبوط جواب دینا چاہیے۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین سے الگ ہونے والی دوریاستوں میں اپنی فوج بھیجنے کی وجہ سے روس پر پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔اور پھر 24فروری کو وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔روس نے جو کہا وہ کردیا۔ روس کی فوج مشرقی یوکرین میں داخل ہوگئی۔اور آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا چاہ کر بھی جنگ روک نہیں پا رہی اور تادم تحریر روس یوکرین کی پارلیمنٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور یوکرینی اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے لوگ یوکرین میں پھنس کر رہ گئے ہیں جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ اْمید ہے کہ امن پسند ممالک کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک Stop War کسی نہ کسی طرح کام کرے گی اور دنیا میں ایک بار پھر امن کی اْمید بندھے گی ورنہ خاکم بدہن یہی سمجھیں کہ ہم تیسری جنگ عظیم کو دعوت دے رہے ہیں جسے روکنا شاید بہت مشکل ہوگا!

مصنف کے بارے میں