پاکستان جعلی کتابوں کا گڑھ ہے!

پاکستان جعلی کتابوں کا گڑھ ہے!

لاہور:کہا جاتا ہے کتاب انسان کا بہترین ساتھی ہے لیکن اگر کوئی اپنے اسی بہترین ساتھی کے ساتھ ہی برا سلوک کرے تو اس سے بڑا جرم کیا ہو گا۔

زندگی کے تمام شعبوں کی طرح کتابوں اور اُن کے مالکانہ حقوق کے لیے قوانین وضع ہیں۔اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں حالات کچھ اور ہی کہتے ہیں۔

دنیا بھر میں پا ئریٹڈ یعنی جعلی کتابوں کا گڑھ پاکستان کو کہا جاتا ہے ۔لیکن پاکستان میں کتاب خریدتے وقت شاید ہی کوئی اس بات کا خیال کرتا ہو کہ خریدی گئی کتان اصلی ہے یا جعلی اور اس کے مالکانہ حقوق کس کے پاس ہیں۔

جعلی کتب خریدنے سے جہاں مصنف کی دل آزاری ہوتی ہے وہیں لکھاریوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔


مصنف جمعہ خان صوفی کا کہنا ہے کہ ” لکھنے والے کے لیے کتاب ایک بچے کی مانند ہوتی ہے کیا کوئی چاہے گا کہ اپنے بچے کو کسی کے حوالے کر دے؟مصنف اپنے ذاتی مطالعے اور تجربے سے کتاب لکھتا ہے اور جب کوئی بغیر اجازت کے اسے چھاپتا ہے تو اس کی جان نکل جاتی ہے “۔


لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے ۔وہ یہ کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اگر کوئی کتاب پڑھنے والا موجود ہے اور کتاب مہنگی ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس میں نہیں ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے اگر اُ س کو کتاب سستے داموں مل جائے۔

راولپنڈی کے کتاب فروش حمیدکا کہنا ہے کہ ” کچھ لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ مہنگی کتابیں خرید کر اپنے بچوں کو دیں تو وہ سستی کتابیں خرید لیتے ہیں اس طرح ان کے بچے علم سے محروم نہیں رہیں گے“۔


جبکہ دوسری جانب مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ کسی جرم سے کم نہیں اور اس کا نقصان مصنف سے زیادہ طالب علموں کو ہوتا ہے اگر کوئی چیز مس پرنٹ یا برے پرنٹ کے ساتھ چپی ہے جسے سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے تو طالب علم امتحان میں کیسے کامیاب ہو گا اور غلط علم سیکھتا رہے گا۔